بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لطیفے سنانا


سوال

لطیفے  سننا  اور  پڑھنا کیسا ہے؟  جب  کہ اکثر  لطیفے  جھوٹے ہوتے  ہیں اور  اکثر علماءِ کرام اپنے بیانوں میں چھوٹے موٹے لطیفے کہتے  رہتے  ہیں، شریعت میں لطیفوں کا کیا حکم ہے؟

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو  شخص لوگوں کو ہنسانے کے لیے  جھوٹ بولتا ہے،  اس کے  لیے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔

اس  حدیث  کے  ذیل میں شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ اگر کوئی  مضحکہ خیز بات ایسی ہو جو جھوٹ پر مشتمل ہو یا کسی کی ایذاء کا سبب ہو تو ایسا  ہنسانے والا کلام  یا  لطیفہ گناہ کا باعث ہو گا،  لیکن اگر  کوئی لطیفہ ایسا ہو جس میں نہ ہی جھوٹ ہو اور  نہ  ہی کسی کی  ایذا  رسانی کا باعث ہو ، نہ اس میں کسی قوم کی اہانت مقصود ہو  تو ایسی بات کرنا جائز ہے  اور   اگر ایسے لطیفے سننے سنانے کو مستقل مشغلہ نہ بنایا جائے تو اس میں شرعًا کوئی  حرج  نہیں۔

عام طور پر علماءِ کرام جو لطیفہ سناتے ہیں وہ سامعین کے نشاط اور اُن کو چست رکھنے   کی غرض سے سنائے جاتے ہیں جو جھوٹ وغیرہ پر بھی مشتمل نہیں ہوتے، اگر کوئی لطیفہ واقعتًا  صریح جھوٹ پر مشتمل ہو تو وہ ناجائز ہو گا۔

سنن الترمذي ت بشار (4/ 135):

"عن جدي، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ويل للذي يحدث بالحديث ليضحك به القوم فيكذب، ويل له ويل له."

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي (12/ 80):

"قوله: (ويل) أي هلاك عظيم أو واد عميق (ليضحك) بضم أوله وكسر الحاء من الإضحاك (به) أي بسبب تحديثه أو الكذب (القوم) بالنصب على أنه مفعول ثان و يجوز فتح الياء والحاء ورفع القوم ثم المفهوم منه أنه إذا حدث بحديث صدق ليضحك القوم فلا بأس به كما صدر مثل ذلك من عمر رضي الله تعالى عنه مع النبي صلى الله عليه و سلم حين غضب على بعض أمهات المؤمنين. قال الغزالي: و حينئذ ينبغي أن يكون من قبيل مزاح رسول الله صلى الله عليه وسلم فلايكون إلا حقاً و لايؤذي قلباً و لايفرط فيه. فإن كنت أيها السامع تقتصر عليه أحياناً و على الندور فلا حرج عليك. و لكن من الغلط العظيم أن يتخذ الإنسان المزاح حرفة، و يواظب عليه ويفرط فيه ثم يتمسك بفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهو كمن يدور مع الزنوج أبداً لينظر إلى رقصهم، و يتمسك بأن رسول الله صلى الله عليه و سلم أذن لعائشة رضي الله عنها في النظر إليهم و هم يلعبون."

فقه الإسلام = شرح بلوغ المرام (10/ 282):

"[ما يفيده الحديث] 
1 - أنه لايحلّ لمسلم أن يكذب ليضحك الناس.
2 - جواز إضحاك الناس من غير كذب."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں