بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا نام أیمن رکھنا جائز ہے یا ناجائز؟


سوال

ہم اپنی بیٹی کا نام ایمن رکھنا چاہتے ہیں،  اگر ہم ام ایمن نہ رکھیں اور صرف ایمن رکھ دیں تو کیا یہ درست ہے؟

جواب

’’ایمن‘‘  عربی زبان کا لفظ ہے، جو کہ"ي م ن" کے  مادہ سے ماخوذ ہے،اس کے مختلف معانی میں سے چند ایک یہ ہیں : (1)بابرکت ہونا،(2) خوش بخت ہونا،(3) دائیں طرف ہونا۔

یہ نام مردوعورت دونوں کے لیے استعمال کیاجاتاہے،اسلامی تاریخ میں  ’’أیمن‘‘ اکثر مرد حضرات (بشمول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے نام کے طور پر استعمال ہواہے، باقی عورتوں کے لیے یہ اکثر و بیشتر ’’اُمِّ أیمن‘‘ کے طور استعمال ہوتا رہا ہے،البتہ  علامہ ابن اثيرؒ نے اپنی كتاب  "اُسد الغابة في معرفة الصحابة"ميں ’’الفُجَيع بن عبدالله رضی الله عنہ‘‘ نامی صحابی رسول كا تذكره کیا ہے، جس كے تحت موجود روايت سے معلوم ہوتا ہے کہ مذكوره صحابی کی بیٹی كا نام أیمنہے، لہٰذا اس نسبت سے آپ کے لیے اپنی بیٹی کا نام فقط أیمن رکھنا ناصرف درست ہے، بلکہ باعث برکت بھی ہے۔

مُعجم الصّحابہ للبغویؒ میں ہے:

"(1) أيمن بن أم أيمن وهو أيمن بن عبيد وهو أخو [أسامة بن زيد]، وأمه أم أيمن، مولاة النبي صلى الله عليه وسلم....(2) أيمن بن خريم الأسدي".

(باب الهمزة، باب من اسمه أيمن، ج:1، ص:95 - 101، ط:مكتبة دارالبيان)

اُسد الغابہ فی معرفۃ الصّحابہ  لابن اثیرؒ میں ہے:

"أخرج إلينا عبد الملك بن عطاء البكائي كتابا من النبي صلى الله عليه وآله وسلم، فقال لنا: اكتبوه، ولم يمله علينا، وزعم أن ‌أيمن ‌بنت الفجيع حدثته: هذا كتاب من محمد النبي للفجيع ومن تبعه، ومن أسلم وأقام الصلاة، وآتى الزكاة...الخ".

(باب الفاء، احوال الفجيع بن عبد الله البكائي، ج:4، ص:50، ط:دارالفكر)

وفیہ أیضاً:

"بركة بنت ثعلبة بن عمرو بن حصن بن مالك بن سلمة بن عمرو بن النعمان، وهي ‌أم ‌أيمن، غلبت عليها كنيتها كنيت بابنها أيمن بن عبيد، وهي أم أسامة بن زيد، تزوجها زيد بن حارثة بعد عبيد الحبشي، فولدت له أسامة. يقال لها: مولاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخادم رسول الله صلى الله عليه وسلم".

(كتاب النساء، احوال بركة بنت ثعلبة، ج:6، ص:36، ط:دارالفكر)

القاموس الوحید میں ہے:

يَمَنَ: يَيْمِنُ يَمْناً: دائیں طرف ہونایا آنا، یمن میں آنا۔

يَمَنَ هُوَ ميْمُوْنٌ، ج: مَيَامِيْنُ۔

اَيْمَنَ: دائیں طرف ہونا،یمنی چادر اوڑھنا۔

يَمَّنَ يَامَنَ: با برکت ہونا، خوش بخت ہونا۔

الاَيْمَنُ: دائیں ہاتھ سے کام کرنے والا، داہنا۔

المَيْمَنَةُ: برکت خوش بختی، فوج کا داہیاں بازو۔

اليُمْنُ: برکت، خیر۔

اليُمْنيٰ: دایاں ہاتھ، دائیں جہت۔

اليُمْنَةُ: ایک قسم کی یمنی چادر۔

(بابُ الياء، المادّه:يمن، ص:1916-1917، ط:ادارہ اسلامیات) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں