بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے کا والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا


سوال

 لڑکا ، لڑکی آپس میں   محبت کرتے ہیں،    اور  نکاح کرنا چاہتے ہیں،  جبکہ لڑکے  کے والدین اس رشتے سے راضی نہیں ہیں،  کیا ایسی صورت  میں لڑکی کا رشتہ اس لڑکے سے کروانا جائز ہے ؟  یہ دونوں اپنی اس محبت پر حدیثِ خنساء کا  حوالہ دیتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کی خدمت میں ایک لڑکی حاضر ہوئی اور کہا میرے والدین نے میری اجازت کے بغیر میرا نکاح کیا ہے جبکہ میں اس نکاح سے خوش نہیں تو نبی علیہ السلام نے فرمایا یہ نکاح نہیں ہوا، کیا یہ صحیح روایت ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں!

جواب

عاقل بالغ لڑکا یا لڑکی  کا اپنے والدین کی اجازت کے بغیر، گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنے سے شرعًا نکاح منعقد ہوجاتاہے،  البتہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح پر خود اقدام کرنا مناسب نہیں،اس سے بسا اوقات بعد میں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں،اسی طرح والدین کو بھی بلاوجہ شادی کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے ،بلکہ اگر رشتہ مناسب ہو تو لڑکے کے حسبِ منشا نکاح کردینا چاہیے،

صورتِ مسئولہ میں لڑکی کے اہلِ خانہ کو چاہیے کہ وہ لڑکے کو اس بات پر آمادہ کرےکہ وہ  اپنے والدین کو راضی کرے تاکہ دونوں خاندانوں   کی باہمی  رضامندی اور  خوشی سے نکاح جیسا عظیم عمل  پائے تکمیل تک پہنچ سکے ؛  کیوں کہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعًا و اخلاقًا انتہائی ناپسندیدہ ہے۔

باقی  ان دونوں لڑکا،لڑکی کا اپنے  ناجائز عشق  پر  ایک صحابیہ  کے جائزعمل کو  بطورِ استدلال پیش کرنا کسی طور پر بھی جائز نہیں،نیز    حضرت خنساءانصاریہ  کا  واقعہ جو حدیث میں مذکورہے  وہ فسخِ نکاح کے سلسلے میں ہے ؛ لہذااس روایت  کو  اپنے ناجائز تعلقات کے لیے دلیل کے طور  پر پیش کرنا درست نہیں،  اس پر توبہ واستغفار کریں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( فنفذ نكاح حرة مكلفة لا ) رضا ( ولي ) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا ( وله ) أي للولي (إذا كان عصبةً) ولو غير محرم كابن عم في الأصح، خانية. وخرج ذوو الأرحام والأم وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح ( ما لم ) يسكت حتى ( تلد منه)".

 ( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب النكاح ، باب الولي   ،ج؛3،ص:55،ط: سعيد)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

(کتاب النکاح، فصل: ولایة الندب والاستحباب في النکاح،ج:2،ص:245، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں