بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکوں سے ناجائز تعلقات ختم کرنے کا طریقہ


سوال

میں بچپن سے گھر سے باہر ہوں ،پہلے سکول میں تھا تو ہاسٹل میں رہا کرتا تھا،  ابھی یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں،  مجھے اللہ پاک نے خوش شکل بنایا ہے ، جب سکول میں تھا تو مجھے لڑکے بہت پسند کرتے تھے ، میرے اس سارے وقت میں بہت لوگوں کے ساتھ جائز و ناجائز تعلقات رہے ۔  ہاسٹل میں اکیلا رہتا تھا ، جس کی وجہ سے  میں بہت گناہوں میں پڑ گیا،  مشت زنی میں نے بہت زیادہ کی،  جس پر  میں ابھی پشیماں  ہوں ، میری زندگی اب بہت دکھوں بھری گزر رہی ہے ،میرے اندر جنسی خواہش بڑی عمر کے مردوں کی راغب ہوتی ہے،  میرے تعلقات بھی بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ ہیں ، میں نے شادی بھی کرنی ہے،  مگر میرا  دل لڑکی طرف نہیں جاتا،  اور نہ  جنسی خواہش جاتی ہے،  مجھے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں بڑی عمر کے مردوں کے بجائے عورتوں میں دلچسپی لوں اور شادی کر سکوں، میں اس وجہ سے ڈیپریشن میں مبتلا ہوں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ   نیک ماحول اور اچھے لوگوں کی  صحبت اختیار کرے ، اور فوراً ان لوگوں سے تعلقات ختم کردے،جن کے تعلقات سے گناہوں میں مبتلاء ہونے کا اندیشہ ہو، ،اور   اگر ان سے تعلقات ختم کرنا   اور  گناہوں سے بچنا مشکل ہورہاہو تو  یہ سوچے   کہ اگر اس گناہ کے کرتے وقت مجھے میرے والدین (یا کوئی بھی ایسے رشتہ و تعلق والا شخص جس سے انسان اپنا گناہ چھپانا چاہے مثلاً اساتذہ وغیرہ) دیکھ لیں  یا انہیں علم ہوجائے تو کیا میں ان کے سامنے یہ گناہ کرسکوں گا؟ یا شرمندہ ہوں گا؟ پھر یہ سوچے  کہ جب میں والدین کے سامنے گناہ سے شرماتا ہوں تو اللہ تعالیٰ جو ہر وقت  مجھے دیکھ رہے ہیں، جو میرے خالق اور  حقیقی محسن ہیں اور حساب و کتاب پر مکمل قادر ہیں، ان کے سامنے میں کس منہ سے حاضر ہوں گا، نیز یہ سوچے  کہ قیامت کے دن اگر والدین، بہن بھائیوں، اساتذہ، دوستوں  اور تمام مخلوق کے سامنے بتادیا گیا کہ فلاں بن فلاں نے فلاں دن فلاں وقت یہ گناہ کیا ہے، تو اس وقت آدمی شرم سے پانی پانی ہوجائے گا، قیامت کا وہ منظر سوچیں تو امید ہے کہ گناہوں کا ترک کرنا آسان ہوجائے گااور ان سب باتوں کی عادت پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی صحبت انتہائی ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ فرض نمازوں کی پابندی کے علاوہ اللہ تعالی سے ان گناہوں سے بچنے کی خصوصی دعا کرتے رہیں، ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو   تمام گناہوں سے سچی توبہ کی توفیق  عطا فرمائے، اور شریعت کے احکام پر چلنا آسان فرمائے۔

نیز   اگر  نکاح کی استطاعت ہے تو جلد ازجلد  نکاح کرنے کی کوشش کی جائے، ورنہ غلبہ شہوت سے بچنے کے لیے کثرت سے روزوں کا اہتمام کیا جائے، اور ساتھ نیک لوگوں کی صحبت میں  بیٹھنے کا اہتمام اور تنہائی میں رہنے سے اجتناب کیا جائے ، بدنظری سے مکمل پرہیز کرے۔

اسی طرح  ہر وقت ذکر کا اہتمام کریں، سوائے بیت الخلا، غسل خانے اور ایسی جگہ کے جہاں ذکر کرنا درست نہیں ہے۔  جب تک  مذکورہ عادات نہ چھوٹیں  روزانہ دو  رکعت  نفل توبہ و حاجت کی نیت سے پڑھ کر اللہ سے  مذکورہ   گناہ سے چھٹکارے کی دعا مانگیں۔

 کثرت سے اس دعا  کا ورد کریں: "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ الْهُدٰى وَالتُّقٰى وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰى"۔ترجمہ:اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی اور استغنا کا سوال کرتا ہوں۔

اسی طرح کثرت  کے ساتھ   سید الاستغفار پڑھنے کا اہتمام کریں ، ان شاء اللہ یہ عادت جلد ہی چھوٹ جائے گی۔    سید الاستغفار یہ ہے: 

"اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَيَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ". (صحیح بخاري)

ترجمہ:اے  اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی استطاعت بھر تجھ سے کیے ہوئے وعدہ و اقرار پر قائم ہوں، اور میں تیری ذات کے ذریعہ اپنے کئے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں تو نے مجھے جو نعمتیں دی ہیں، ان کا اقرار اور اعتراف کرتا ہوں، میں اپنے گناہوں کو تسلیم کرتا ہوں تو میرے گناہوں کو معاف کر دے، کیونکہ گناہ تو بس تو ہی معاف کر سکتا ہے

شعب الایمان میں ہے :

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا . قال البخاري في التاريخ."

(فصل في تحريم الفروج ومايجب التعفف عنها، ج:7، ص:329،  ط:مكتبة الرشد)

سنن ابن ماجہ  میں ہے :

"عن علقمة بن قيس، قال: كنت مع عبد الله بن مسعود بمنى، فخلا به عثمان فجلست قريبا منه، فقال له عثمان: هل لك أن أزوجك جارية بكرا تذكرك من نفسك بعض ما قد مضى؟ فلما رأى عبد الله أنه ليس له حاجة سوى هذا، أشار إلي بيده، فجئت وهو يقول: لئن قلت ذلك، لقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معشر الشباب، ‌من ‌استطاع ‌منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع، فعليه بالصوم، فإنه له وجاء."

( باب ما جاء فی فضل النکاح، ج:1، ص:592، ط:دار احیاء الکتب)

فتاوی شامی میں ہے :

"ويكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه بدائع (و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح فيأثم بتركه ويثاب إن نوى تحصينا وولدا (حال الاعتدال) أي القدرة على وطء ومهر ونفقة ورجح في النهر وجوبه للمواظبة عليه والإنكار على من رغب عنه (، ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك... وفي الرد : قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن الاستمناء بالكف، فيجب التزوج."

(کتاب النکاح ،ج:3، ص:6، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100887

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں