بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے سے پردہ فرض ہونے کی عمر کیا ہے؟


سوال

 عورت کو  کم سے کم کتنی عمر کے لڑکے سے پردہ شروع کرنا چاہیے؟

جواب

پردے کا اصل مدار شہوت کی حد کو پہنچنے پر ہے، لہٰذا لڑکا جب اتنی عمر کا ہوجائے جس میں اس کو شہوت آتی ہو یا اس کو دیکھنے سے عورت کو شہوت پیدا ہوتی ہو تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے ، فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے  دس سال کے لڑکے کو مراہق ومشتہی قرار دیا ہے،لہذا دس سال کے لڑکے سے عورت کو پردہ کرنا ضروری ہے، الا یہ کہ اگر کسی لڑکے میں دس سال کی عمر سے پہلے ہی لڑکیوں کی طرف میلان محسوس کیا جائے تو  اسی عمر سے پردہ کرنا چاہیے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذلِكَ أَزْكى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِما يَصْنَعُونَ(30)وَقُلْ ‌لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَا مَا ظَهَرَ مِنْها وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبائِهِنَّ أَوْ آباءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنائِهِنَّ أَوْ أَبْناءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَواتِهِنَّ أَوْ نِسائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور:31)."

ترجمہ:"آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے بے شک اللہ تعالیٰ کو سب کی خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ (وہ بھی ) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور زینت ( کے مواقع ) کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس ( موقع زینت) میں سے (غالبا) کھلا رہتا ہے (جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے ) اور اپنے ڈوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنی زینت ( کے مواقعہ مذکورہ ) کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے (محارم پر یعنی ) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے (حقیقی علاقی اور اخیافی بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی حقیقی علاقی اور اختیاتی بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنی لونڈیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی ( کے طور پر رہتے ) ہوں اور ان کو ذرا توجہ نہ ہو یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے بھی ناواقف ہیں ( مراد غیر مراہق ہیں ) اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اور ( مسلمانوں تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہو گئی ہو تو ) سب اللہ کے سامنے تو بہ کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔"(بیان القرآن)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: {أو الطفل الذين لم يظهروا على ‌عورات ‌النساء} قال "مجاهد هم الذين لا يدرون ما هن من الصغر". وقال قتادة: "الذين لم يبلغوا الحلم منكم". قال أبو بكر: قول مجاهد أظهر; لأن معنى أنهم لم يظهروا على ‌عورات ‌النساء أنهم لا يميزون بين ‌عورات ‌النساء والرجال لصغرهم وقلة معرفتهم بذلك، وقد أمر الله تعالى الطفل الذي قد عرف ‌عورات ‌النساء بالاستئذان في الأوقات الثلاثة بقوله: {ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم} وأراد به الذي عرف ذلك واطلع على ‌عورات ‌النساء، والذي لا يؤمر بالاستئذان أصغر من ذلك. وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "مروهم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر وفرقوا بينهم في المضاجع"، فلم يأمر بالتفرقة قبل العشر وأمر بها في العشر; لأنه قد عرف ذلك في الأكثر الأعم ولا يعرفه قبل ذلك في الأغلب."

(من سورة نور، 3/ 412، ط: دار الكتب العلمية)

تفسیرِ کبیر میں ہے:

"المسألة الثانية: الظهور على الشيء على وجهين: الأول: العلم به كقوله تعالى: إنهم إن يظهروا عليكم يرجموكم [الكهف: 20] أي إن يشعروا بكم والثاني: الغلبة له والصولة عليه كقوله: فأصبحوا ظاهرين فعلى الوجه الأول يكون المعنى أو الطفل الذين لم يتصوروا عورات النساء ولم يدروا ما هي من الصغر وهو قول ابن قتيبة، وعلى الثاني الذين لم يبلغوا أن يطيقوا إتيان النساء، وهو قول الفراء والزجاج.

المسألة الثالثة: أن الصغير الذي لم يتنبه لصغره على عورات النساء فلا عورة للنساء معه، وإن تنبه لصغره ولمراهقته لزم أن تستر عنه المرأة ما بين سرتها وركبتها، وفي لزوم ستر ما سواه وجهان: أحدهما: لا يلزم لأن القلم غير جار عليه والثاني: يلزم كالرجل لأنه يشتهي والمرأة قد تشتهيه وهو معنى قوله: أو الطفل الذين لم يظهروا على عورات النساء واسم الطفل شامل له إلى أن يحتلم."

(سورة نور، الحكم السابع حكم النظر، 23/ 367، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

تفسیر ِ مقاتل بن سلیمان میں ہے:

"ثم قال- سبحانه-: أَوِ الطِّفْلِ يعني الغلمان الصغار الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ لا يدرون ما النساء من الصغر فلا بأس بالمرأة أن تضع الجلباب عند هؤلاء «4» المسلمين فى هذه الآيةكذا فى أ، ل، ز، والمراد عند وجود هؤلاء تتخفف المرأة من جلبابها."

(سورة نور،3/ 196ط:دار إحياء التراث - بيروت)

تفسیرِ مظہری میں ہے:

"أو الطفل الذين لم يظهروا على عورات النساء الطفل جنس وضع موضع الجمع اكتفاء بدلالة الوصف يعنى لم يبلغوا او أن القدرة على الوطي من ظهر على فلان إذا قوى وقدر عليه- أو المعنى لم يظهروا أى لم يكشفوا عن عورات النساء بالجماع من الظهور بمعنى الغلبة ولذلك عدى بعلى أو من الظهور بمعنى الاطلاع فان الكشف يستلزم الاطلاع والمراد بعدم الظهور وعدم الكشف أيضا عدم صلاحية ذلك فالحاصل أنهم لم يبلغوا حد الشهوة وقال مجاهد معناه لم يعرفوا العورة من غيرها لأجل الصغر وعدم التميز-والأولى هو الأول فان الطفل إن كان مميزا لكنه لم يبلغ حد الشهوة جاز للنساء الانكشاف عنده إلا من السرة الى الركبة- ولا يجوز لها بحضرته كشف ما تحت السرة كما يدل عليه قوله تعالى ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات- وإن كان طفلا غير مميز بالكلية فهو كالجمادات والبهائم لا بأس لو كشفت عنده ما تحت الإزار ايضا- وإن كان مراهقا يشتهى فحكمه حكم الرجال لأنه استعد للظهور على عوراتهن-."

(التفسير المظهري، سورة نور:٣١، ج:٦، ص:٥٠١، ط: مكتبة الرشدية - الباكستان)

 

بیان القرآن میں ہے:

"یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردہ کی باتوں سے ابھی تک واقف نہیں ہوئے(مراد غیر مراہق پس ان سب کے سامنے وجہ کفین قدمین کے ساتھ زینت کے مواقع مذکورہ کا ظاہر کرنا بھی جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔"

(ج:2، ص:574، ط: رحمانیہ)

امداد الفتاوی میں ہے:

"السؤال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نابالغ لڑکوں اغیار سے پردہ کس عمر کے لڑکے سے چاہیے؟

الجواب:۔۔۔۔۔۔نابالغ لڑکے تین قسم کے ہیں،ایک تو بالکل نادان جن کو بالکل کسی چیز کی تمییز نہیں،اُن کے رُوبرو تو برہنہ ہونا بھی جائز ہے،وہ مثلِ جمادات کے ہیں۔

دوسرا ذرا ہوشیار کہ تمییز تو رکھتا ہے،مگر حدِ شہوت کو نہیں پہنچا،اُس کے رُوبرو ناف سے زانو تک کھولنا جائز نہیں،باقی جائز ہے۔

تیسرا وہ جو قریب بلوغ کے پہنچ گیا ہو،اس کا حکم مثلِ بالغین کے ہے،تمام ستر ڈھاکنا اس سے فرض ہے۔

قال الله تعالى:أو الطفل الذين لم يظهروا على عورات النساء......فان الطفل ان كان مميزا لكنه لم يبلغ حد الشهوة جاز للنساء الانكشاف عنده الا من السرة الى الركبة- ولا يجوز لها بحضرته كشف ما تحت السرة كما يدل عليه قوله تعالى ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات- وان كان طفلا غير مميز بالكلية فهو كالجمادات والبهائم لا بأس لو كشفت عنده ما تحت الإزار ايضا- وان كان مراهقا يشتهى فحكمه حكم الرجال لانه استعد للظهور على عوراتهن-(التفسير المظهري)

(امداد الفتاوی جدید مطول حاشیہ، ج:9، ص: 234، ط: رشیدیہ)

احسن  الفتاوی میں ہے:

پر وہ فرض ہونے کی عمر :

"سوال: لڑ کی پر کتنی عمر میں پردہ کرنا فرض ہو جاتا ہے اور لڑ کا کتنی عمر کا ہو جائے تو اسے عورتوں کے پاس جانے سے روکا جائے گا ؟ بينوا تؤجروا۔

الجواب باسم ملهم الصواب

احکام حجاب سے مقصود مردوں اور عورتوں کو بد نظری اور برے خیالات کے گناہ سے محفوظ رکھنا ہے ، سو جس عمر سے بچوں میں اس گناہ میں مبتلا ہونے کا احتمال ہوگا وہ اس عمر سے احکام حجاب کے مکلف ہوں گے اور پردہ کے سلسلے میں ایسے بچوں کا وہی حکم ہو گا جو بالغ مردوں عورتوں کا ہے۔

چنانچہ اس بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : أو الطفل الذين لم يظهروا على عورات النساء - یعنی جب بچے میں شہوت پیدا ہو جائے تو اس سے پردہ کرنا فرض ہے۔قال الإمام الخازن رحمه الله تعالى : لم يبلغوا حد الشهوة (تفسير الخازن ج: 3، ص:349) وقال العلامة الآ لوسی رحمه الله تعالى : الذين لم يبلغوا حد الشهوة والقدرة على الجماع (روح المعانى ج:5،ص:131)

حد شهوت تک پہنچنے پر قدرة على الجماع بھی ہو جاتی ہے. كما هو ظاهر من عبارة العلامة الآلوسى رحمه اللہ تعالی و مصرح فيما سیجئ من نصوص الفقهاء رحمهم الله تعالى اگر بالفرض دونوں کی عمر میں کچھ معمولی سا تفاوت ہو تو حکم حجاب کا مدار حد شہوت ہے قدرت جماع نہیں، یہ حقیقت عقلاً و نقلاً ہر لحاظ سے بدیہیات و مسلمات میں سے ہے، جس کی دو وجوہ ہیں :

1)شہوت قلب سے نظر فکر مستقل گناہ کبیرہ ہے ، بلکہ بلا شہوت نظر یا تفکر سے شہوت پیدا ہو جانے کا احتمال ہو تو وہ بھی حرام ہے۔

2)مشتہی بچے کی نظر آئندہ چل کر زنا اور دوسری بدکاریوں میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہے ،وذريعة الحرام حرام

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کی عمر کو حد شہوت کی عمر قرار دیا ہے۔عن عمر و بن شعيب عن أبيه عن جده رضی اللہ تعالی عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مروا أولادكم بالصلوة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين وفرقوا بينهم فى المضاجع رواه أبو داود ( مشكوة ج:1،ص:58) دس سال کی عمر میں تفریق مضاجع کا حکم فرمایا گیا ، اس حکم کی علت احتمال شہوت ہے اور اس عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ضرب کا حکم فرمانا بھی اس امر کا مشعر ہے کہ اس عمر کے نیچے بمنزلہ بالغین ہیں۔

قال العلامة علي القاری رحمه الله تعالى : لأنهم بلغوا أو قاربوا البلوغ (مرقاة ج:2،ص:115)

وقال الطيبي رحمه الله تعالى : لأن بلوغ العشر مظنة الشهوة (مرقاة ج:2،ص:116) حدیث مذکور کے مطابق فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی دس سال کے لڑکے کو مراہق ومشتہی قرار دیا ہے۔

قال العلامة الحصكفى رحمه الله تعالى : ولومراهقا يجامع مثله وقدره شيخ الإسلام بعشر سنين.

وقال العلامة ابن عابدین رحمه الله تعالى: (قوله ولومراهقا) هو الداني من البلوغ نهر (قوله يجامع مثله) تفسير للمراهق ذكره في الجامع وقيل هو الذي تتحرك آلته ويشتهى النساء كذ ا فى الفتح ولا يخفى انه لا تنافي بين القولين نهر (رد المحتار،ج:2،ص:538)

اشكال : در مختار میں اشباہ سے نقل کیا ہے :

يد خل على النساء الى خمسة عشر سنة حسب

جواب : حدیث و فقہ کی مذکورہ بالا تصریحات کے پیش نظر اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پندرہ سال کی عمر ہو جانے کے باوجود شہوت ظاہر نہ ہو تو بھی اس عمر میں پردہ فرض ہے۔

لڑکی کے بارے میں حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور دوسرے دلائل و تجارب کی بناء پر حضرات فقہاء رحمہم اللہ تعالی کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ نو سال کی عمر میں مشتہاہ ہو جاتی ہے ، اس لئے نو سال کی لڑکی پر پر وہ فرض ہے ، حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور نصوص فقہا ء رحمہم اللہ تعالی کے مطابق لڑکی نو سال کی عمر میں بالغ ہو سکتی ہے تو اس عمر میں مرا ہقہ ومشتهاة بطریق اولی ہو سکتی ہے ، اس لئے نو سال کی لڑکی کو فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالی نے بالاتفاق مشتہاہ قرار دیا ہے۔

قال العلامة الحصكفى رحمه الله تعالى : وقدر بتسع و به يفتي و بنت أحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي

وقال العلامة ابن عابدین رحمه الله تعالى : بل في محرمات المنح و بنت تسع فصا عدا مشتهاة اتفاقا سائحانی (رد المحتار  ج :ص:640)

مذکورہ بالا روایات حدیث وفقہ سے یہ امر متحقق ہوگیا کہ نو سال کی لڑکی اور دس سال کالڑکا احکام حجاب کے مکلف ہیں، اگر وہ خود کوتا ہی کریں تو ان کے اولیاء پر فرض ہے کہ وہ ان سے ان احکام پر عمل کروائیں ۔

نشو ءنما اور ماحول کے پیش ِنظر  لڑکے اور لڑکی کے لیے پردہ کی عمر مذکور میں کچھ کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے۔والله سبحانه وتعالى اعلم۔"

(احسن الفتاوی،کتاب الحظر والاباحہ، پردہ ودیگر مسائل، ج:8، ص:37 /38 /39، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں