ہماری تعلیم گاہ خواتین کی ہے ، مگر یہاں کچھ لڑکیاں لڑکوں سا حلیہ اپنا کر رہتی ہیں ،مثال کے طور پر چھوٹے بال، خود کو لڑکوں کی طرح مخاطب کرنا اور ویسے ہی کپڑے پہننا، کیا شرعی پردے میں ان سے پردے کا حکم ہے؟
شریعت میں لڑکیوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ لڑکوں جیسا حلیہ ہرگز اختیار نہ کریں، ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہے، اور ایسا کرنے والیوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، لہذا ایسا کرنے والی لڑکیوں کو اپنے اس فعل سے باز رہنا چاہیے، باقی جو لڑکیاں لڑکوں سا رُوپ اختیار کر کے رکھتی ہیں، اگر اُن سے ایسا گمان ہو کہ وہ لڑکیوں کو دیکھ کر اُن کا حلیہ لڑکوں یا مردوں سے بیان کریں گی تو اُن سے بھی پردہ کرنا چاہیے۔
اور اگر ایسے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو عام لڑکیوں کو اُن سے پردے کا حکم نہیں۔
مشكاة المصابيح میں ہے:
"قال النبي صلى الله عليه وسلم: لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال."
(2/ 1262الناشر: المكتب الإسلامي - بيروت)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولا ينبغي للمرأة الصالحة أن تنظر إليها المرأة الفاجرة؛ لأنها تصفها عند الرجال فلا تضع جلبابها، ولا خمارها عندها، ولا يحل أيضا لامرأة مؤمنة أن تكشف عورتها عند أمة مشركة أو كتابية إلا أن تكون أمة لها، كذا في السراج الوهاج."
(کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن، جلد:5، صفحہ: 327، طبع: دار الفکر)
کفایت المفتی میں ہے:
"(سوال)وہ عورتیں جو فاحشہ ہوں ۔ بیباک آوارہ خراب چال چلن رکھنے والی ، تھیٹر میں پارٹ کرنے والی اور مردوں کا رنگ اختیار کرنے والی جو زنا نہ اسکولوں کا معائنہ کرتی پھرتی ہوں، نیز وہ عورتیں جن کا اصل مقصد تبلیغ عیسائیت ہے اوروہ علی ا لعموم گھروں میں دستکاری سکھانے کے بہانے سے آتی جاتی ہیں، ایسی عورتوں سے عام مسلمان عورتوں کو پردہ کرنا چاہیے۔
(جواب ۵۳۸) ہاں ایسی عورتوں سے جن سے مضرت دینیہ یا اخلاقیہ پہنچنے کا ظن غالب ہو مسلمان عورتوں کو پردہ کرنا چاہیے، نہ اس حیثیت سے کہ عورت سے عورت پردہ کرے، بلکہ اس مضرت کے خیال سے، جس کے پہنچنے کاظن غالب ہے۔محمد کفایت اللہ غفرلہ،۔"
(کتاب الحظر والاباحۃ، باب الحجاب، جلد:12، صفحہ:268، طبع: فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100713
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن