وہ مولوی جو لڑکوں سے بدفعلی کرتا ہو اور وہ کسی جگہ امام ہو یا نائب امام ہو یا کسی دن وہ جماعت کھڑی کرے تو کیا اس کے پیچھے نماز ہوگی؟
واضح رہے بدفعلی خواہ کسی کے ساتھ بھی ہو عقلاً، طبعًا، شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح ترین عمل ہے،حتی کہ اس کو زنا سے زیادہ سخت گناہ کہا گیا ہے ، اس کی حرمت اور مذمت قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہے۔
لہذا اگر واقعۃً کسی امام میں یہ برائی پائی جاتی ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر قریبی مسجد میں متدین و متقی امام موجود ہو تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر امام میں مذکورہ برائی نہیں ہے تو اس پر الزام لگانے والا عنداللہ سخت مجرم ہوگا۔
حاشیۃ طحطاوی میں ہے:
"كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه."
(کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان الأحق بالإمامة، ص:303، 304، ط:دار الکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي البحر: حرمتها أشدّ من الزنا؛ لحرمتها عقلًا وشرعًا وطبعًا".
(مطلب لاتكون اللواطة فى الجنة، ج4، ص:28، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504100655
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن