بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا عصری تعلیم حاصل کرنا اورنوکری کرنا


سوال

1:عورتوں کاعصری تعلیم حاصل کرناجائز ہے یانہیں ؟

2: دوسراسوال یہ ہے کہ عورتوں کوسرکاری نوکری کرناجائز ہے یانہیں؟

جواب

1:لڑکیوں کو عصری علوم کی تعلیم دلانا مطلقاً ناجائز  نہیں ہے،  بلکہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ضروری عصری علوم کی تعلیم دلانا شرعاً  ایک مستحسن امر ہے، اگر گھر کی چار دیواری میں ہی اس کی کوئی صورت   ممکن ہوسکے تو  سب سے بہتر ہے، البتہ اگر ان علوم کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے  تو اس کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کی پابندی بہرحال لازم ہے،  جہاں یہ شرطیں پائی جائیں گی وہاں لڑکیوں کو اس طرح  تعلیم دلانا جائز ہوگا اور جہاں یہ شرائط مفقود ہوں گی وہاں خواتین کا تعلیم کے لیے جانا ناجائز ہوگا، وہ شرائط درج ذیل ہیں:

(1) خواتین کی تعلیم گاہیں صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں،مخلوط تعلیم نہ ہو اور مردوں کا ان تعلیم گاہوں میں آنا جانا  ہرگز نہ ہو، نیز ان کا جائے وقوع فتنہ فساد اور اس کے امکان سے بھی محفوظ ہو۔
(2) ان تعلیم گاہوں تک خواتین کی آمد ورفت کا شرعی پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ۔
(3) نیک کردار، پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو  ضروری علوم (مثلاً میڈیکل) کی تعلیم کے لیے بدرجہٴ مجبوری نیک صالح اور قابلِ اعتماد مرد کو مقرر کیا جائے جو  پس پردہ خواتین کو تعلیم دے، کسی مرحلے میں بلاحجاب اس سے آمنا سامنا نہ ہو، نہ ہی براہِ راست تعلق ہو، نیز میڈیکل کی تعلیم اور اس کی عملی مشق میں حجاب اور ستر کے شرعی مسائل کی مکمل پاس داری کی جائے۔
(4) اگر  تعلیم گاہ شرعی مسافت پر ہو تو وہاں جانے کے لیے عورت کے ساتھ اس کا محرم بھی ہو ۔

(5) ان اداروں میں تعلیم دلانے سے ان کے عقائد اور دینی اعمال واخلاق  خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اگر کسی جگہ ضروری عصری تعلیم دی جاتی ہو تو وہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانا جائز اورمباح ہوگا ، بصورتِ دیگر ناجائز ہوگا،  کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم خواتین کے لیے عموماً زائد از ضرورت ہے، سوائے ان شعبوں کے جو خواتین سے متعلق ہیں، لہٰذا خواتین کے لیے یونیورسٹی کی سطح تک ان ہی شعبوں کی تعلیم کی مذکورہ شرائط کے ساتھ اجازت ہوگی۔

2:واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ  میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور  ضرورتِ شدیدہ کے بغیر اس کے اپنے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملے میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی،  چنانچہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں آپ کے پیچھے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے،   نیز کمانے کی غرض سے بھی عورت کا نکلنا ممنوع قرار دیا گیا ہے،  اور  اُس کا نفقہ  اس کے والد یا شوہر پر لازم کیا گیا ؛ تا کہ گھر سے باہر نکلنے کی حاجت پیش نہ آئے،   شادی سے پہلے اگر اُس کا اپنا مال نہ ہو تو اس کا نفقہ اس کے باپ پر لازم ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم کیا ہے، لہذابلا ضرورت  کمانے کے لیے بھی عورت کا اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہوتو ایسی صورت میں عورت کے گھر سے نکلنے کی گنجائش ہو گی، لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے، کسی نا محرم سے بات چیت نہ ہو،   ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی  غیر محرم کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔اور یہ بات ملحوظ رہے کہ عورت کا اپنے محرم کے بغیر تنہا  سفرِ شرعی اڑتالیس میل ( سواستترکلومیٹر )کی مسافت یا اس سے زائد مسافت بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً ممنوع ہے اور سفر کرنے کی صورت میں وہ گناہ گار ہوگی ، اگر نوکری کرنے کی شدید مجبوری ہو تو  مذکورہ شرائط کے ساتھ نوکری کی جائے، محرم کے بغیردوسرے شہر کا سفر ہرگز نہ کیا جائے۔

لہذاصورتِ  مسئولہ میں درج بالاشرائط اور تفصیل کے مطابق اگر عورت نان و نفقہ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کسبِ معاش  پر مجبور ہو  اور   وہ شرعی حدود کی رعایت کرکے  یہ نوکری کرسکتی ہو تو اس  کے لیے سرکاری نوکری کرنا شرعًا جائز  ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»".

(الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے :

"ولأن النساء أمرن بالقرار فی البیوت فکان مبنی حالھن علی الستر و الیه أشار النبی صلی اللہ علیہ وسلم حیث قال : کیف یفلح قوم تملکھم إمراۃ."

(باب الإمامة، مطلب في شروط الإمامة الكبرى ،ج: 1 ،ص: 548،ط:سعید )

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"واما الأناث فلیس للأب أن یؤاجرهن في عمل أو خدمة  و نفقة الأناث واجبة مطلقا علی الآباء مالم یتزوّجن اذا لم یکن لھن مال، کذا في الخلاصة ."

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات ،الفصل الرابع في نفقة الأولاد الصغار ،ج: ا،ص: 563 و 562، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507100132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں