بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکیوں کے متعلق چند مسائل


سوال

1- ہمارے عرف میں لڑکیاں ایامِ حیض میں شرم و حیا کے باعث دوسروں سے یہ معاملے چھپانے کے لیے جھوٹ بولتی ہیں، مثلاً رمضان کے مہینے میں سحری میں اٹھ کر سحری کرکے دن بھر دوسروں سے چھپ کر کھاتی ہیں یا نماز کے وقت الگ کمرے میں جاتی ہیں؛ تاکہ گھر میں باقی محارم جو عقل و شعور سے خالی ہوتے ہیں کے سوالوں سے بچ سکیں، ایسا کرنا کیسا ہے؟ یہ طریقے ہمارے عرف میں عام ہیں، جن کا کچھ لوگ رد بھی کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حیض میں کوئی شرم کی بات نہیں، سب سے اس بارے میں کھل کر کہنا چاہیے۔ اس معاملے میں توریہ سے کام لیا جاسکتا ہے؟

2۔ کس عمر تک کی نامحرم لڑکی کو شفقت کے طور پر چھوا یا چوما جاسکتا ہے؟

 3۔ کس عمر تک کی نا محرم لڑکیوں کو عام طور پر دینی تعلیم دی جاسکتی ہے؟

 4۔ اگر کوئی معلمہ موجود نہ ہو جس کی وجہ سے لڑکیاں دین سے بالکل بے خبر رہ رہی ہوں، یہاں تک کہ ان کو قرآن بھی نہ پڑھنا آتا ہو تو کیا اس صورت میں ایک نا محرم انہیں شریعت کی طرف سے ضروری کردہ چیزیں پڑھا سکتا ہے؟ فی زمانہ یہ صورت بہت عام ہوگئی ہے کہ ہمارے پاس معلمات نہیں اور معلم کو عام صورت میں شریعت نے اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے مسلمان لڑکیاں دین سے دن بہ دن دور ہورہی ہیں اور اس خلا کو دور کرنے کی نیت سے پڑھانے کی کوئی جواز کی صورت بنتی ہے یا نہیں؟ تاکہ کچھ لڑکیوں کو پڑھایا جائے جو ان چیزوں کو آگے پڑھائیں، جس کی وجہ سے معلمات کی کمی کی وجہ سے جو لڑکیاں دین سے بالکل ناواقف ہیں، ان تک دین پہنچ سکے، کیا اس معاملے میں اصول شرع"الضرورات تبیح المحظورات" کا اطلاق ہو سکتا ہے؟

جواب

1۔حیا ایمان کاخاصہ ہے، ہمارے عرف میں عورتوں کا اس طرح کے معاملات میں حیا اور توریہ کا اختیار کرنا نہ صرف جائز، بلکہ ایک مستحسن امر ہے۔

2۔ نامحرم بچی کو شہوت کے ساتھ چھونا، چومنا بلکہ دیکھنا بھی ناجائز ہے، البتہ از راہِ شفقت  نامحرم بچی کو اس عمر تک  چھوا یا چوما جاسکتا ہے   جب تک وہ شہوت کی حد تک نہ پہنچ جائے۔

3۔ بغیر پردے کے بچی کو اس وقت تک تعلیم دی جاسکتی ہے جب تک وہ شہوت کی حد تک نہ پہنچ جائے۔

ان دونوں اجزا کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہجب بچی کے جسم کی ساخت ایسی ہو کہ اسے دیکھ کر مرد کو اس کی خواہش ہونے کا اندیشہ ہو، یا وہ بچی اتنی سمجھ دار ہوجائے کہ اسے کسی مرد کو دیکھ کر خواہش ہونے لگے، تو اس صورت میں اس بچی کو چھونا یا بغیر پردہ کے اسے دینی تعلیم دینا ناجائز ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’جب لڑکی سیانی ہوجائے کہ اس کے اندر ایسا مادہ پیدا ہوجائے کہ خود اس کو مرد کی خواہش ہونے لگے یا مرد کو اس کی خواہش ہونے لگے تو وہ پردہ کے قابل ہوگی، پھر ساری عمر پردہ کرے گی۔۔۔‘‘ الخ (ج19 / ص169)

4۔ وہ بچی جو حدِّ شہوت کو پہنچ چکی ہو اسے  پردے میں تعلیم دینا ضروری ہے، مذکورہ عمر کے بعد مرد کے لیے بغیر پردے کے لڑکی کو تعلیم دینا مذکورہ صورت میں بھی جائز نہیں، اگر معلمات کی کمی ہے تو معلمین حضرات اپنے محارم میں سے چند خواتین کو تعلیم دیں جو آگے خواتین کو تعلیم دے سکیں۔

المبسوط للسرخسي (10 / 152):

 

"قال محمد: وكذلك إذا بلغت أن تجامع وتشتهي لأن الظهر والبطن منها عورة لمعنى الاشتهاء فإذا صارت مشتهاة كانت كالبالغة لا تعرض في إزار واحد".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (6 / 369):

"قال في الهداية: وإذا حاضت الأمة لم تعرض في إزار واحد، ومعناه بلغت وعن محمد إذا كانت تشتهى، ويجامع مثلها فهي كالبالغة لا تعرض في إزار واحد لوجود الاشتهاء اهـ تأمل".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (6 / 367):

"(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها «لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمة» وقال عليه الصلاة والسلام: «من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة» وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلا يحل له النظر والمس كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى (إلا من أجنبية) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ".

 فقط وا لله أعلم


فتوی نمبر : 144107200402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں