بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر لڑکی والوں رسم ورواج کے تحت لڑکے والوں سے مہمانوں کا کھانا کھلانے کا خرچہ لینے کا حکم


سوال

ہمارے ہاں رواج ہے کہ شادی کے موقع پر لڑکے کے گھر والوں سے لڑکی کے گھر والے کھانے پینے کی تمام اشیاءیعنی شادی پر مہمانوں پر جتناخرچ آتا ہے خوراک کا وہ سب لیتے ہیں،  اب سوال یہ ہے کہ اس طرح رسم کے تحت لڑکے والوں سے رقم لینا جائز ہے، اور کیا ایسی  خوراک کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سےبلائے گئے مہمان لڑکی والوں کے مہمان ہوتے ہیں، جن کی  تواضع کرنا لڑکی والوں کا  شیوہ ہے، رسم اور رواج کے تحت اپنے مہمانوں  کا خرچہ لڑکے والوں سے لینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر لڑکے والے رسم ورواج نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے لڑکی والوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اور ایسا کھانا کھانا بھی جائز ہے۔

سنن أبی داود میں ہے:

" عن أبي شريح الكعبي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، جائزته يومه وليلته، الضيافة ثلاثة أيام وما بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه»".

(کتاب الأطعمة، باب ما جاء في الضیافة، رقم الحدیث:3738، ج:3، ص:342،  ط: المكتبة العصرية)

صحیح بخاری میں ہے:

"وقال أنس: «إذا دخلت على مسلم لا يتهم، فكل من طعامه واشرب من شرابه»".

(کتاب الأطعمة، باب  الرجل يدعى إلى طعام ، ج:7، ص:82،  ط:دارطوق النجاة)

فتاوی شامی میں ہے:

"  (قوله ومن السحت) بالضم وبضمتين الحرام أو ما خبث من المكاسب فلزم عنه العار جمعه أسحات وأسحت اكتسبه قاموس، ومن السحت: ما يأخذه الصهر من الختن بسبب بنته بطيب نفسه حتى لو كان بطلبه يرجع الختن به مجتبى".

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:424، ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی  محمودیہ میں ہے: 

"جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر  کھائیں گے!اور اپنے مہمان کو کھلانا  تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے۔"

( باب العروس والولیمہ، ج:12، ص:142،  ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں