بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی سے فون پر اجازت لے کر گواہوں کی موجودگی میں اس سے اپنا نکاح کرلینا


سوال

میں نے ایک لڑکی سے فون پر پوچھا کہ آپ کو میں قبول ہوں اس نے کہا "جی قبول ہو" پھر میں نے حق  مہر کے بارے میں پوچھا اس نے کہا مجھے نہیں چا ہیے،  لیکن میں نے تاکید کی،  پھر اس نے کہا :  دس ہزار بھی ٹھیک ہے،  لیکن میں نے کہا زیادہ رکھ دیتا ہوں،  پھر  میں نے نکاح کی اجازت مانگی  کہ آپ مجھےاپنے نکاح کی مکمل اجازت  دے دیں،  نکاح عید کے بعد  کریں گے،  لڑکی نے کہا:  "اجازت ہے"۔ پھر عید کے بعد دو گواہوں کی موجودگی میں خود خطبہ نکاح پڑھا اور حق مہر  20  ہزار میں اس کے ساتھ اپنا نکاح کیا،  نکاح فون پہ نہیں کیا فون پر صرف اجازت لی تھی،  ہم دونوں لڑکا لڑکی کفو  ہیں،  ایک دوسرے کے  رشتہ دار بھی ہیں،  گواہان بھی  رشتہ دار ہیں،  لڑکی کو جانتے ہیں اور دیکھا بھی ہے  تو کیا یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر  واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو  اس کا حکم یہ ہے کہ لڑکی سے فون پر نکاح کی اجازت لینے کے بعد لڑکے نے گواہوں کی موجودگی میں از خود اس کا اپنے سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے۔ البتہ اس طرح والدین سے چھپ کر نکاح کرنا پسندیدہ نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ ان کو اعتماد میں لے کر  اس  نکاح  کی تشہیر کردی جائے۔

الفتاوى الهندية (3/ 561):

"و إذا وكل رجلًا غائبًا و أخبره رجل بالوكالة يصير وكيلًا، سواء كان المخبر عدلًا أو فاسقًا أخبره من تلقاء نفسه أو على سبيل الرسالة صدقه الوكيل في ذلك أو كذبه، كذا في الذخيرة. "

وفیہ ایضا(1/ 268):

"امرأة وكلت رجلًا ليزوجها من نفسه فقال الوكيل بحضرة الشهود: تزوجت فلانةً و لم يعرف الشهود فلانةً لايجوز النكاح ما لم يذكر اسمها و اسم أبيها وجدها؛ لأنها غائبة و الغائبة تعرف بالتسمية، كذا في محيط السرخسي. و كان القاضي الإمام ركن الإسلام علي السغدي في الابتداء لم يشترط ذكر الجد ثم رجع في آخر عمره و كان يشترطه، و هو الصحيح و عليه الفتوى، كذا في المضمرات.
و إن كانت حاضرةً متنقبةً و لايعرفها الشهود؛ جاز النكاح و هو الصحيح، و إن أراد الاحتياط يكشف وجهها حتى يراها الشهود أو يذكر اسمها و اسم أبيها وجدها، و لو كان الشهود يعرفونها و هي غائبة فذكر الزوج اسمها لا غير وعرف الشهود أنه أراد به المرأة التي يعرفونها جاز النكاح، كذا في محيط السرخسي
."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200286

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں