بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی سے نکاح کی اجازت ایک بار لینا ہی کافی ہے


سوال

 میں اپنے علاقے خیرپور میرس سندھ میں  نکاح وغیرہ پڑھاتا ہوں،    لیکن یہاں ایک قوم کا یہ رواج بنا ہوا ہے کہ جب لڑکی سے عقد نکاح قبول کروایا جاتا ہے تو وہ ایک دو یا تین بار کہنے سے قبول نہیں کرتی بلکہ فلاں بن فلاں آپ کو نکاح میں قبول ہے یہ جملہ کئی بار دہرایا جاتا ہے ۔ میرے کہنے کا مطلب دلہن حد سے زیادہ ضد کرتی ہے قبول کرنے میں، جو لڑکی  جتنا زیادہ پریشان کرے اس کو غیرت مند سمجھا جاتا ہے ۔ میں نے تو ان کو منع کیا ہے اس عمل سے،  مگر   اس بارے میں  فتویٰ درکار ہے ۔یہ جملہ قبول والا سوکے قریب کہا جاتا ہے۔

جواب

لڑکی  سے اجازت  لینے کاطریقہ یہ ہے کہ لڑکی کا ولی (باپ اگر وہ نہ ہو تو بھائی چچا وغیرہ) یا جس کو ولی اپنا وکیل بناکر اجازت لینے کے لیے بھیجے ،ولی یا اُس کی طرف سے وکیل لڑکی کے پاس جاکر کہے کہ تیرا نکاح فلاں (جس سے نکاح ہونا ہے اُس کا نام) ابن فلاں (جو فلاں شخص  کابیٹا ہے ) سے کیا جارہا ہے، اتنا مہر ہے، کیا تیری طرف سے اجازت ہے؟ اِس کے جواب میں لڑکی اگر کنواری ہے اور وہ سن کر خاموش رہے یا زبان سے اجازت  دے دے اور اگرکنواری نہیں  بلکہ ثیبہ ہے تو زبان سے ا جازت  دے دے،بس اتناکافی ہے۔

باقی سوال میں ذکرکردہ  رواج کہ"  جب لڑکی سے عقد نکاح قبول کروایا جاتا ہے تو وہ ایک دو یا تین بار نہیں بلکہ  یہ جملہ قبول والا سوکے قریب کہا جاتا ہے"شرعًا ثابت نہیں ،اس سے احتراز کیاجائے،اورمذکورہ بالاشرعی طریقہ اختیارکیاجائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن استأذن الولي البكر البالغة فسكتت فذلك إذن منها.......ولو استأذن الثيب فلا بد من رضاها بالقول."

(کتاب النکاح ،الباب الرابع في الأولياء في النكاح،1/ 287و289 ط:رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں