بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی لڑکے کا آپس میں موبائل پر بات کرنے کا حکم


سوال

لڑکالڑکی کا نکاح سے قبل ایک دوسرے سے موبائل پر بات کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اسلام  میں اجنبی لڑکے لڑکی کا بغیر  نکاح کے بلاضرورت گفتگو کرنے (اگر چہ موبائل پر ہی کیوں نہ ہو)، میل جول رکھنے، آپس میں بے تکلف ہونے کا شرعاًکوئی تصور نہیں، اگر چہ وہ  لڑکی لڑکے کی منگیتر ہی کیوں نہ ہو؛ کیوں کہ منگنی وعدۂ نکاح ہے، نکاح نہیں ہے، منگنی کرنے کے بعد منگیتر بھی دیگر اجنبی لڑکیوں کی طرح نامحرم ہی ہوتی ہے، اور نامحرم لڑکی سے تعلقات رکھنا، ملنا جلنا، اور ہنسی مذاق کرنا، بلاضرورت بات چیت کرنا یا میسجز پر غیر ضروری تعلقات قائم کرنا سب ناجائز اورحرام ہے۔

تاہم نہایت ضرورت اور مجبوری کی صورت میں صرف بقدر ضرورت بات کرنے کی گنجائش موجود ہے، لیکن اس میں بھی انتہائی محتاط انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

" يَٰنِسَآءَ ٱلنَّبِىِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍۢ مِّنَ ٱلنِّسَآءِ ۚ إِنِ ٱتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِٱلْقَوْلِ فَيَطْمَعَ ٱلَّذِى فِى قَلْبِهِۦ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا."

(سورۃ الأحزاب:32)

ترجمہ:’’اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں، تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم تقویٰ اختیار کروتو تم (نامحرم مرد سے) بولنے میں (جب کہ بقدرِ ضرورت بولنا پڑے)نزاکت مت کرو،(اس سے) ایسے شخص کو (طبعاً)خیال(فاسدپیدا) ہونے لگتاہےجس کے غلب میں خرابی ہو،اور قاعدہ کےموافق بات کہو ۔‘‘

تشریح:’’لَا تَخْضَعْنَ‘‘جس سے بات کی جائے، اس کے اعتبار سے ہے، اگر چہ ظاہر میں مطلق ہے، مگر مقصود اجنبی لوگوں کے ساتھ گفتگو کے ساتھ خاص ہے۔

’’لَا تَخْضَعْنَ‘‘اور’’قَرْنَ‘‘ اور’’لَا تَبَرَّجْنَ‘‘ خطاب کے اعتبار سے مخاطب حضرات ازواجِ مطہرات ہیں، اگر چہ ظاہر میں خاص ہیں، مگر خطاب کی دلالت کے اعتبار سے مقصود عفت کی حفاظت ہے، جو سب سے مطلوب ہیں، یہ احکام تمام عورتوں کےلیے عام ہیں، جیساکہ مقاتل نے ’’‘‘ میں کہا ہے :

’’ ثم عُمت نساء المؤمنین فی التبرج‘‘

یعنی’’ پھر سج دھج دکھاتی پھرنے میں تمام مؤمنوں کی عورتوں کےلیے عام ہوگیا۔‘‘

بلکہ غور کرنے معلوم ہوتاہےکہ دوسری عورتوں کےلیے یہ احکام درجۂ اولیٰ میں ہیں، کیوں کہ ان احکام کی علت فساد کے راستے بند کرنا ہے کہ جیسا کہ اس پر ’’یطمع‘‘ دلالت کررہاہے، اور ظاہر ہے کہ دوسری عورتوں کو راستے بند کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘

(از :بیان القرآن، ج:3، ص:176، ط: مکتبہ رحمانیہ)

الدر المختار  میں ہے:

"ولايكلم الأجنبية إلا عجوزاً عطست أو سلّمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا۔ انتهى.

وفي الرد:(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزاً بل شابةً لا يشمّتها، و لايرد السلام بلسانه. قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلّم الرجل أولاً، وإذا سلّمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزاً رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابةً رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلّم على امرأة أجنبية، فالجواب فيه على العكس. اهـ".

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في النظر والمس، ج: 6، ص: 369، ط: سعيد)

الأشباہ والنظائر میں ہے:

‌"ما ‌أبيح ‌للضرورة يقدر بقدرها."

(القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، ص:73، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں