بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کو شادی کے موقع پر دی گئی چیزوں کا حکم


سوال

میری جب شادی ہوئی، تو میرے امی ابو کی طرف سے مجھے جہیز میں زیورات، فرنیچر اور دوسری الیکٹرانک آئٹمز وغیرہ ملیں اور میرے سسرال والوں کی طرف سے مجھے سونے کی چوڑیاں اور ایک آدھ سونے کا سیٹ ملا۔

1۔میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ مجھے میرے امی ابو کی طرف سے جو چیزیں ملی تھیں، ان کی مالک میں ہوں یا میرے شوہر بھی حصہ دار ہیں؟ 

2۔دوسری بات یہ کہ جو میرے سسرال والوں نے سونا دیا تھا، اس کی مالک میں ہوں یا میرے شوہر؟ انہوں نے  مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم صرف استعمال کے لیے دے رہے ہیں، بلکہ مجھے گفٹ کے طور پر دیا تھا اور ان کے ہاں یہی رواج ہے کہ گفٹ کے طور پر لڑکی کو سونا دیا جاتا ہے، صرف استعمال کے لیے نہیں دیا جاتا۔

3۔تیسری بات یہ کہ میرے شوہر نوکری کرتے ہیں، ان کی آمدن بہت کم ہے، تو میری بچی کی شادی میں سارا خرچہ میں نے اٹھایا، اس میں میری امی ابو کا دیا ہوا سونا اور میرے سسرال کی طرف سے دیا ہوا سونا سب استعمال ہوگیا، اب میرے شوہر مجھ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ  وہ میرا سونا ہے، مجھے واپس کرو، کیا یہ مطالبہ درست ہے؟

4۔میرے سسر نے جب گھر خریدا تھا، تو مجھ سے 4 چوڑیاں بھی لی تھیں اور یہ کہا تھا کہ ہم آپ کو لوٹائیں گے، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائلہ  کو جو زیورات والدین کی طرف سے بطورِ جہیز کے ملے تھے، ان کی مالک سائلہ خود ہے، اس کے شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔

2۔ اگرواقعۃً سسرال والوں  نے سائلہ کو مذکورہ زیورات گفٹ کے طور پر دیے تھے اور ان کے ہاں یہ رواج ہے کہ لڑکی کو جو سونا وغیرہ دیا جاتا ہے، وہ بطورِ گفٹ کے دیا جاتا ہے، صرف استعمال کے لیے اور عاریت کے طور پر نہیں دیا جاتا، تو ایسی صورت میں سائلہ  کو سسرال والوں کی طرف سے جو کچھ سونا ملا ہے، اس کی مالک وہ  خود ہے، اس میں اس  کے شوہر یا سسرال والوں کا حق نہیں ہے۔

3۔جب سونا سائلہ کا خود کا تھا، تو شوہر کو مطالبے کا حق نہیں ہے۔

4۔ جب سسر نے سونے کی چوڑیاں لیتے  وقت یہ کہا تھا کہ ہم آپ کو واپس لوٹائیں گے، تو یہ  سسر کے ذمہ قرض ہوگیا، اب سائلہ کے سسر پر لازم ہے کہ سائلہ کو  اسی وزن کی سونے کی چار چوڑیاں یا اس کی موجودہ قیمت  لوٹائے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها ولوالجية."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:155، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(الفصل السادس عشر في جهاز البنت) لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها وعليه الفتوى."

(كتاب النكاح، ج:1، ص:327، ط:دار الفكر)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"‌‌فصل في القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:161، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403102386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں