بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑكی كو اغوا كركے اس كے ساتھ نکاح کرنے کا حکم


سوال

کیا لڑکا ایک لڑکی کو اپنے میکے سے اغوا کرکے اس کے ساتھ نکاح کرے تو وہ نکاح کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں کسی کو اغوا کرنا ایک سنگین جرم ہے، شرعاً کسی کی جان، مال ، عزت و آبرو کسی کے لیے حلال نہیں ہے،اس سے بچنالازم ہے، حدیث میں آتاہے:

"المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره، التقوى ها هنا، وأشار بيده إلى صدره، ثلاث مرات، حسب امرئ مسلم من الشر أن يحقر أخاه المسلم، كل المسلم على المسلم حرام، دمه، وماله، وعرضه".

(مسند أبی هريره،ج:13،ص:159،ط:مؤسس الرسالة)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جوکوئی لڑکا کسی لڑکی کو اغواکرکے اس کے ساتھ نکاح کرلیتاہے، اس کو چاہیے کہ توبہ واستغفار کرکےاپنے اس عمل سے باز آجائے، تاہم اگر دونوں بالغ ہوں، اور آپس کی رضامندی سے نکاح کریں تو نکاح درست ہے، اور اگر لڑکی پر جبر واکراہ کیا گیا ہو تو اگر لڑکی نے مجبوراً قبول  کرلیا ہو تو بھی درست ہے،لیکن اگر لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں (بے جوڑ) نکاح کیا تو اولاد ہونے سے پہلے پہلے تک لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو (برابری) میں نکاح کیا ہے تو پھر لڑکی کے اولیاء کو وہ نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین، دیانت، نسب، مال و پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو،لیکن اگر جبرواکراہ کے باوجود لڑکی نے قبول نہ کیا ہو توپھر یہ نکاح شرعاحصیح نہیں ہے، ناجائز  وحرام ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأصل أن تصرفات المكره كلها قولا منعقدة عندنا إلا أن ما يحتمل الفسخ منه كالبيع والإجارة يفسخ، وما لا يحتمل الفسخ منه كالطلاق والعتاق والنكاح والتدبير والاستيلاد والنذر فهو لازم، كذا في الكافي".

(کتاب الإکراہ، الباب الأول، ج:5،ص:35،ط:رشیدیه)

الدرالمختار میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا".

( کتاب النکاح ، باب الولی،ج:3،ص:55، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

(کتاب النکاح، فصل ولایة الندب والاستحباب فی النکاح،ج:2،ص:247،ط:سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش".

(کتاب النکاح،باب الأولیاء والأکفاء، فصل فی الکفاءۃ،ج:3،س293،ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144401100494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں