بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کے نکاح کے وکیل کا لڑکی کا نکاح اپنے آپ سے کرلینا


سوال

 ایک باکرہ بالغہ لڑکی نے ولی کے اجازت کے بغیر کسی شخص سے فون پر کہا کہ آپ میرا نکاح کروا دو کہیں بھی آپ کو اجازت ہے اور اس شخص نے دو گواہوں کی موجودگی میں اس اجازت کے بل بوتے پر خود سے نکاح کر لیا، کیا لڑکی کی طرف سے اجازت درست ہے؟ اگر نہیں درست تو درست ہونے کیلیے کیا شرائط ہیں؟ اس شخص کا نکاح شرعی طور پر منعقد ہوا کہ نہیں ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں    عاقلہ بالغہ  لڑکی نے   اگر مذکورہ شخص کو  یہ کہا تھا کہ :” آپ میرا نکاح کروا دو کہیں بھی آپ کو اجازت ہے “  اور اس  شخص نے  کسی دوسرے شخص سے نکاح کرانے کے بجائے اپنے آپ سے اس کا نکاح کردیا تو یہ نکاح  لڑکی کی  اجازت پر موقوف ہے، اگر  لڑکی اس کو  قبول کرلے تو منعقد ہوگا ورنہ نہیں۔

البتہ اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی  کسی شخص سے یہ کہے کہ  آپ اپنے آپ سے میرا نکاح کردیں ، اور پھر لڑکا  نکاح کی مجلس میں گواہوں ( دو مسلمان مرد یا ایک مرد  اور دو عورتوں) کی موجودگی میں  اس لڑکی سے اپنا نکاح خود کرلے تو یہ نکاح شرعًا منعقد ہوجائے گا ، اگر لڑکی نکاح کی  مجلس میں خود موجود نہ ہو تو گواہوں کے سامنے اس کے  اور اس کے  والد وغیرہ کے نام کے تعارف کے ساتھ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔ بہرصورت اگر  عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے  والدین کی اجازت کے بغیر اس طرح نکاح کرتی ہے تو یہ   شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے،  اگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر    غیر کفو  میں نکاح کیا یا اپنے مہر مثل سے بہت کم مہر پر نکاح کیا   تو   اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو  عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو میں اور مہر مثل پر  نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء   کو  نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ،  اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(كما للوكيل) الذي وكلته أن يزوجها على نفسه فإن له (ذلك) فيكون أصيلًا من جانب وكيلًا من آخر،(بخلاف ما لو وكلته بتزويجها من رجل فزوجها من نفسه) لأنها نصبته مزوجا لا متزوجا (أو وكلته أن يتصرف في أمرها أو قالت له زوج نفسي ممن شئت) لم يصح تزويجها من نفسه كما في الخانية  والأصل أن الوكيل معرفة بالخطاب فلا يدخل تحت النكرة.

(قوله: فإن له ذلك) أي تزويجها لنفسه بشرط أن يعرفها الشهود، أو يذكر اسمها واسم أبيها وجدها أو تكون حاضرة منتقبة، فتكفي الإشارة إليها وعند الخصاف لا يشترط كل ذلك: بل يكفي قوله زوجت نفسي من موكلتي كما بسطه في الفتح والبحر، وقدمنا الكلام عليه عند قوله وبشرط حضور شاهدين....الخ

(قوله: من رجل) أي غير معين، وكذا المعين بالأولى، وفي الهندية عن المحيط: رجل وكل امرأة أن تزوجه فزوجت نفسها منه لا يجوز. اهـ. (قوله فزوجها من نفسه) وكذا لو زوجها من أبيه أو ابنه عند أبي حنيفة كما قدمناه عن البحر لأن الوكيل لا يعقد مع من لا تقبل شهادته له للتهمة (قوله لأنها إلخ) يوهم الجواز لو زوجها من أبيه أو ابنه، وقد علمت أنه لا يجوز (قوله أو وكلته أن يتصرف في أمرها) لأنه لو أمرته بتزويجها لا يملك أن يزوجها من نفسه فهذا أولى هندية عن التجنيس...الخ

(قوله:  والأصل إلخ) بيانه أن قولها وكلتك أن تزوجني من رجل؛ الكاف فيه للخطاب، فصار الوكيل معرفة وقد ذكرت رجلا منكرا والمعرف غيره، وكذا قولها ممن شئت فإنه بمعنى أي رجل شئته."

(3/  98، 99 ،100،كتاب النكاح، باب الكفاءة،  ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا".

 (3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

 (2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں