بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا یکطرفہ عدالتی خلع کے بعد دوسری جگہ کیے ہوئے نکاح کا حکم


سوال

سوال نمبر 1 ۔اگر کورٹ یک طرفہ خلع کا فیصلہ جاری کر دے جبکہ شوہر اس دن پیشی پر وہاں موجود نہ  ہو اور ذاتی طور پر بھی شوہر اپنی زوجہ کو طلاق نہ دینا چاہتا ہو تو کیا یہ  خلع شرعی طور پر جائز ہے؟

اس کے علاوہ قانونی طور پر عدالت  یونین کونسل کو فریق بناتی ہے کہ وہ میاں اور بیوی میں صلح کرائے باہمی رضامندی سے، اور اس کے بعد بھی دونوں فریقین راضی نہ ہوں تو پھر 90 دن کے بعد عدالت فیصلہ صادر کرتی ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا، بلکہ دونوں فریقین یونین کونسل گئے ہی نہیں اور عدالت نے اپنا فیصلہ صادر کر دیا، مندرجہ بالا طریقہ کار سے آیا یہ فیصلہ جائز ہے یا نہیں؟

سوال نمبر 2 ۔عدالتی فیصلہ کے تحت دی گئی طلاق کے بعد میری بیوی نے بغیر عدت گزارے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلیا ہے جبکہ دونوں فریقین کو نکاح کرنے والی  اور نکاح کرنے والے شخص کو اس بات کا اچھی طرح علم ہو تو آیا نکاح جائز ہے یا ناجائز ہے؟

جواب

(1،2)۔خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس کے لیے جانبین یعنی میاں بیوی کی رضا مندی ضروری ہے، اگر عدالت شوہر کی رضامندی (خواہ زبانی ہو یا تحریری) کے ساتھ  خلع کا فیصلہ کرتی ہے یا فیصلہ ہونے کے بعد شوہر اس خلع کے فیصلہ پر قولاً یا فعلاً رضامندی کا اظہار کرتا ہے ،تو شرعاً ایسا خلع معتبر ہوگا، لیکن اگر عدالت  شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کا فیصلہ دے دے اور فیصلہ ہونے کے بعد بھی شوہر اس پر (قولاً یا فعلاً) رضامندی کا اظہار نہ کرے تو شرعاً یہ خلع معتبر نہیں ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر عدالت  نے واقعۃً آپ کی رضامندی کے بغیر  یکطرفہ طور آپ کی بیوی کو خلع کی ڈگری جاری کردی ہو اور آپ نے خلع کا فیصلہ جاری ہونے کے بعد بھی اس خلع کو قبول نہ کیا ہو اور نہ ہی خلع نامہ پر دستخط  کیے ہوں تو شرعاً خلع نہیں ہوئی، اس لیے آپ دونوں کا نکاح قائم ہے اور چوں کہ آپ کی بیوی تاحال آپ کے نکاح میں ہے اس لیے اس کا دوسرے شخص سے نکاح کرنا جائز نہیں تھا، اگر اُس نے دوسرے شخص سے نکاح کر بھی لیا ہے تب بھی یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ نکاح کالعدم ہے اور ان دونوں کا میاں بیوی کی طرح ساتھ رہنا بدکاری ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے،دونوں فی الفور علیحدگی کرلیں،اور غلطی پر توبہ و استغفار کریں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".

(كتاب الطلاق، باب الخلع، 3/  441 ، ط: سعيد) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول".

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الطلاق، 3/ 145، ط:دار الكتب العلمية)

مبسوط سرخسي میں ہے:

"و نكاح المنكوحة لا يحله أحد من أهل الأديان." 

(کتاب المبسوط،الجزءالعاشر،ج: 10،ص:،163،ط:دارالفکر،بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا.

(كتاب النكاح، باب المهر،مطلب في النكاح الفاسد،3/ 132،ط: سعيد)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے

"( فصل ) : ومنها أن لاتكون منكوحة الغير، لقوله تعالى : { والمحصنات من النساء } معطوفًا على قوله عز وجل : { حرمت عليكم أمهاتكم } إلى قوله : { والمحصنات من النساء } وهن ذوات الأزواج ، وسواء كان زوجها مسلمًا أو كافرًا."

(کتاب النکاح،فصل أن لا تكون منكوحة الغي ،ج:2،ص:268،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں