بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا از سرِ خود اپنا نکاح کرنے کا حکم


سوال

شریعت کی حدود میں رہ کر اگر کوئی لڑکی شرعی کام سر انجام دیتی ہے اور اس شرعی کام کے کرنے پر اگر اس کے والدین اس سے ناراض ہو جاتے ہیں تو کیا حکم ہے؟

مثلاً: میں ایک لڑکی ہوں اور میرے والد ایک سال پہلے میرے تایا کے بیٹے سے شادی کرنے کا ارادہ کر چکے تھے کہ سال بعد شادی کردیں گے، لیکن سال گزرنے کے بعد اب وہ منع کر رہے ہیں، منع کر نے کی وجہ میری سوتیلی والدہ ہیں، کیوں کہ وہ نہیں چاہتیں کہ میری شادی میرے والد کے خاندان میں ہو، اور والد صاحب میری سوتیلی والدہ کے آگے کچھ نہیں بولتے اور میری سوتیلی والدہ ہم سے مخلص نہیں ہیں، وہ والد صاحب سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرتی ہیں اور طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں، لیکن والد صاحب چوں کہ ان سے بہت محبت کرتے ہیں اس لیے ہر دفع منا لیتے ہیں، پھر ہم بھی بہت سارے معاملات میں صبر سے کام لیتے ہیں، اب والد صاحب میرے تایا کے گھر والوں کو یہ کہہ کر منع کر رہے ہیں کہ ’’میرا ابھی چار، پانچ سال تک شادی کرنے کا ارادہ نہیں ہے اور استخارے میں بھی نہیں آرہا ہے‘‘، جب کہ میں کئی دفعہ استخارہ بھی کر چکی ہوں اور میرادل مطمئن ہے اور جس کزن سے میری بات ہوئی تھی وہ اچھا دیندار اور میرا کفو بھی ہے اور میں اس کو پسند بھی کرتی ہوں اور وہ بھی مجھے پسند کرتا ہے۔

اس صورتِ حال میں کیا اس کے ساتھ والد کی مرضی کے بغیر شادی کر سکتی ہوں؟ ورنہ والد صاحب تو میری 4-5سال تک  شادی بھی نہیں کریں گے اور اس کے بعد کریں گے بھی تو والدہ کے خاندان میں، جو مجھے پسند نہیں ہے اور نہ ہی میں خوش رہ سکتی ہوں۔

تنقیح:

’’آپ کے والد نے آپ کے تایا کے بیٹے کے ساتھ آپ کی شادی کا صرف ارادہ کیا تھا یا آپ کے تایا کے ساتھ بات کرکے آپ کی منگنی بھی طے کردی تھی؟‘‘

جوابِ تنقیح:

’’نہیں، منگنی تو نہیں کی تھی، بس میری پھوپھو کے ذریعے رشتے سے رضامندی کا اظہار کیا تھا، ہمارے یہاں اگر دوسرے خاندان سے رشتے داری ہوتی ہے تو رسم ہوتی ہے، اگر آپس میں رشتے داری ہوتی تو منگنی وغیرہ نہیں کی جاتی، بس شادی ہوتی ہے۔ کیوں کہ پھوپھو ہمارے گھر رشتے کی بات کرنے آئی تھیں، لیکن انہوں نے یہ بات میری سوتیلی والدہ کے سامنے نہیں کی تھی، میرے والد نے کہا کہ جا کر بھائی کو (یعنی میرے تایا) کو بتادو کہ مجھے رشتے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن مجھے ٹائم لگے گا، تقریباً سال ڈیڑھ سال اور ابھی شو نہیں کرنا، ورنہ رشتے داری کی وجہ سے عید وغیرہ پر عیدی وغیرہ اور دیگر معاملات کرنے پڑیں گے، اور وہ وہ اپنی بیگم (یعنی میری سوتیلی والدہ) کو بھی منائے گا۔‘‘

جواب

شریعتِ مطہرہ نے والدین کو تاکید کی فرمائی ہے کہ جب ان کی اولاد بلوغت کو پہنچ جائے تو ان کے نکاح میں تاخیر نہ کریں، چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ تین چیزوں میں دیر نہ کرو، اور اس میں ایک نکاح بھی ہے، والد اگر اپنی اولاد کے نکاح میں بلا وجہ شرعی تاخیر کرتا ہے اور خدا نخواستہ اولاد کسی گناہ میں ملوث ہوجاتی ہے، تو اس گناہ میں اولاد کے ساتھ ساتھ والد بھی برابر شریک ہوں گے، لہٰذا والدین کو چاہیے کہ بلاوجہ اپنی اولاد کی شادی میں تاخیر نہ کریں، اگر اچھا رشتہ موجود ہو تو نکاح کردینا چاہیے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کے والدین نے پھوپھی کے ذریعے رشتے آنے کے بعد ررضامندی کا اظہار کیا تھا تو اب والدین کے لیے انکار کرنا مناسب نہیں ہے اور اگر سائلہ از خود نکاح کرنا چاہتی ہے تو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرکے نکاح کرسکتی ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ والدین کو منا کر ان کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرے، تاکہ بعد میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

سنن الترمذی میں ہے:

"حدثنا ‌قتيبة، قال: حدثنا ‌عبد الله بن وهب، عن ‌سعيد بن عبد الله الجهني، عن ‌محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن ‌أبيه، عن ‌علي بن أبي طالب أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: «يا علي، ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا."

(أبواب الصلاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، ج: 1، ص: 213، ط: دار الغرب الإسلامي بيروت)

ترجمہ: ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے  ان سے فرمایا:   اے علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ میں جب آجائے، او عورت (کے نکاح میں ) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)  مل جائے۔‘‘

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه."

( كتاب النكاح، باب الولى فى النكاح واستئذان المرأة، الفصل الثالث، ج: 2، ص: 939، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ: ’’حضرت ابو سعيد اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروي ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔‘‘

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌فنفذ ‌نكاح ‌حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا. (وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به."

(كتاب النكاح، باب الولي، ج: 3، ص: 56، ط: دا رالفكر بيروت)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

"م: (فصل في الكفاءة) ش: لما كانت الكفاءة معتبرة وعدمها يمنع الجواز، ولهذا يتمكن الأولياء من الفسخ احتاج إلى أن يذكر حكمها في فصل على حدة، قال الجوهري: الكفء النظير، وكذلك الكفو، والكفوء على فعل وفعول. والمصدر الأكفاء بالفتح والمد. وقال ابن الأثير: الكفء النظير، والمساوي ومنه الأكفاء في النكاح، وهو أن يكون الزوج مساويا للمرأة في حسبها ونسبها، ودينها، وسنها وغير ذلك."

(كتاب النكاح، باب في الأولياء والأكفاء، فصل في الكفائة في النكاح، ج: 5، ص: 107، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں