بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا والدین کی اجازت کے بغیر کیا ہو انکاح


سوال

 اگر کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی کر لے اور کچھ ٹائم بعد اس لڑکی کے والدین راضی ہو جائیں اور لڑکی کے چاچو وغیرہ ناراض ہوں، تو اس کیلئے شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر (شرعی گواہان کی موجودگی میں )اپنا نکاح خود کرلے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے،اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے۔ البتہ جب بعد میں والدین راضی ہوگئے ہوں ، تو ان کی رضامندی کی صورت میں لڑکی کے چچا وغیرہ کا اس نکاح پر راضی نہ ہونا معتبر نہیں، اور نہ انہیں ایسی صورت میں اس نکاح کے فسخ کا اختیار ہے۔باقی زیر نظر مسئلہ میں لڑکی کے لیے بہتر یہ ہے کہ اپنے چچا وغیرہ سے بھی اس قسم کا قدم اٹھانے پر معافی مانگ لے، ممکن ہے کہ چچا راضی ہوجائے، اور تعلقات بحال ہوجائیں، قطع رحمی کے گناہ سے بچ  جائے گا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا". 

(3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

(2/ 247،کتاب النکاح، فصل: ولایة الندب والاستحباب في النکاح، ط: سعید )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلاينفسخ النكاح بينهما".

(1/ 292، کتاب النکاح، الباب الخامس في الأکفاء فی النکاح، ط: رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں