بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا اخلاقاً مذموم ہے


سوال

میرا نکاح اس طرح ہوا کہ لڑکی نے  اپنے نکاح کا ایک شخص کو فون پر وکیل بنایا اور اس کو اپنے نکاح کا اختیار دے دیا ،پھر نکاح خواں نے میری ، وکیل اور  گواہوں کی موجود گی میں ہمارا  نکاح پڑھا دیا ،لیکن لڑکی نے اس بات کا اپنے والدین کو نہیں بتایا ،لڑکی کی عمر اس وقت 22 سال تھی ،مہر  دو لاکھ معجل مقرر ہوا ،لڑکی کے والد نے کہا کہ میں لڑکی کا کفو نہیں ہوں ،یعنی میں اس کا  نان نفقہ   برداشت نہیں کر سکتا ہوں ،حالاں کہ میں مہر کی ادائیگی اور نفقہ دینے پر اس وقت بھی قادر تھا اور اب بھی ہوں ،میں نے سسر کو اس بات کا ثبوت بھی دے دیا ،اس کے بعد کہنے لگے کہ  نکاح منعقد نہیں ہوا ہے ،کیوں کہ میری اجازت کے بغیر ہوا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نکاح منعقد ہوا یا نہیں ؟اس لڑکی کا آگے کسی اور شخص  سے نکاح کرانا حرام کاری ہے یا نہیں ؟

وضاحت :میں نے اسی لڑکی سے مذکورہ نکاح کے بعد کورٹ میرج بھی کی ،مہر وہی دو لاکھ معجل لکھوایا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب  نکاح خواں نے لڑکی  کے وکیل کی موجودگی اور اس کی اجازت سےگواہوں کی موجودگی میں اس  کا نکاح سائل سے کرادیا اور لڑکی بھی اس نکاح پر راضی تھی تو  اس سے  نکاح شرعاً منعقد ہو گیا تھا،لہذا اب سسر کا یہ کہنا کہ " نکاح منعقد نہیں ہوا ہے ،کیوں کہ میری اجازت کے بغیر ہوا ہے" درست نہیں ہے، البتہ  لڑکی کا اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اس طرح نکاح کرنااخلاقاً  مذموم تھا ۔

چوں کہ اب مذکورہ لڑکی سائل کے نکاح میں ہے اس لیے اس نکاح کے ہوتے ہوئےاس  کا دوسری جگہ نکاح کرنے سے نکاح منعقد  ہی نہیں ہوگا ،سائل کو چاہیے کہ  اپنے خاندان کے بڑوں کے ذریعہ  سسر  کو  اس نکاح پر  راضی کرنے کی کوشش کرے اور جو ان کے اشکالات اور شبہات ہوں انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے ،اگر سسر رضامند نہ ہو اور لڑکی ساتھ رہنے پر راضی ہو تو سائل اپنی منکوحہ کے ساتھ رہ سکتا ہے ،تاہم بہتر یہی ہے کہ باہمی رضامندی سے مسئلہ کو حل کیا جائے ۔

الدر المختار میں ہے :

"(ومالا) بأن يقدر على المعجل ونفقة شهر لو غير محترف، وإلا فإن كان يكتسب كل يوم كفايتها لو تطيق الجماع"

(رد المحتار،کتاب النکاح ،باب الکفاءۃ ،ج:3،ص:90،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"أسباب التحريم أنواع: قرابة، مصاهرة، رضاع، جمع، ملك، شرك، إدخال أمة على حرة، فهي سبعة: ذكرها المصنف بهذا الترتيب وبقي التطليق ثلاثا، وتعلق حق الغير بنكاح أو عدة ذكرهما في الرجعة"

(رد المحتار ،کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،ج:3،ص:28،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"و في القھستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أهلهما لیصلحوا بینهما، فإن لم یصطلحا جاز الطلاق و الخلع. و هذا هو الحکم المذکور في الآیة."

(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:3،ص:441،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں