بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا طلاق یا شرعی خلع سے پہلے دوسری جگہ نکاح کرنے کا حکم


سوال

ایک لڑکی سے میرا نکاح ہوا ،اس کے بعد آٹھ ماہ تک ان کے گھر آنا جانا بھی رہا ہے لیکن پھر اچانک اس کی فیملی والے گھر چھوڑ کر کہیں چلے گئے اور اب سال بعد واپس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے کورٹ سے خلع لے لی ہے اور لڑکی کا کہیں اور رشتہ کرنے کا ارادہ ہے اور کر رہے ہیں ،جب کہ میرے پاس نہ کورٹ سے کوئی نوٹس آیا ہے اور نہ میں نے طلاق یا خلع دی ہے ،اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ جو نکاح ہوا تھا وہ قائم ہے یا نہیں؟جب کہ ہم اکیلے میں ملے بھی تھے ۔واضح رہے کہ صرف نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی اور لڑکی میرے پاس آنا بھی چاہتی ہے لیکن اس کے والد نہیں مانتے ،نکاح لڑکی والوں کی خوشی سے ہوا تھا۔سب کے سامنے نکاح کی مکمل تقریب ہوئی تھی۔

جواب

واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے،جس طرح دیگر مالی معاملات کے درست ہو نے کے لیے جانبین کی رضامندی شرعاً ضروری ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی زوجین کی رضامندی شرعاً ضروری ہو تی ہے ،کوئی ایک فریق راضی ہو دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعًا معتبر نہیں ہوتا خواہ وہ عدالتی خلع ہی کیوں نہ ہو ۔

مذکورہ تفصیل  کی رو سے صورتِ  مسئولہ میں سائل کی بیوی نے اگر کسی عدالت سے  یکطرفہ طور پر خلع کی ڈگری حاصل کی ہے جس میں سائل کی رضامندی نہیں تھی اور  سائل کو عدالت میں بلایا بھی نہیں گیا اور تا حال سائل خلع کے اس فیصلہ پر راضی نہیں ہوا تو اس صورت میں یہ خلع شرعاً معتبر نہیں، نکاح بدستور قائم ہے ،سائل کے سسر کا سائل کی بیوی کا دوسری جگہ نکاح کروانا جائز نہیں ،اگر نکاح کروا دیا تو وہ شرعاً منعقد ہی نہیں ہو گا ،ہاں اگر سائل اپنی اہلیہ کو طلاق دے دے یا خلع کے اس فیصلہ کو قبول کرلے تو نکاح ختم ہو جائے گا ،باقی زیر نظر مسئلہ میںعدالتی فیصلہ سے متعلق حتمی جواب خلع کی ڈگری کی نقل اور اس کا مصدقہ اردو ترجمہ پیش کر نے کے بعد ہی دیا جا سکتا ہے ۔

مبسوط سرخسي میں ہے:

"و نكاح المنكوحة لا يحله أحد من أهل الأديان." 

(کتاب المبسوط،الجزءالعاشر،ج: 10،ص:،163،ط:دارالفکر،بیروت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے

"( فصل ) : ومنها أن لاتكون منكوحة الغير، لقوله تعالى : { والمحصنات من النساء } معطوفًا على قوله عز وجل : { حرمت عليكم أمهاتكم } إلى قوله : { والمحصنات من النساء } وهن ذوات الأزواج ، وسواء كان زوجها مسلمًا أو كافرًا."

(کتاب النکاح،فصل أن لا تكون منكوحة الغي ،ج:2،ص:268،ط:سعید) 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، باب الخلع ،ج:3 ،ص: ،441، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں