بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کارشتہ ہو جانے کے بعد نکاح کرنے سے انکار کرنا


سوال

میرا 4  سال سے رشتہ ہوا پڑا ہے ،اور اگلے سال شادی ہے ،لیکن خاندان میں کچھ مسائل کی وجہ سے لڑکی شادی کرنے سے انکار کر رہی ہے، لیکن اس کے گھر والے بھی چاہتے ہیں کہ شادی ہو جائے بس لڑکی انکار کر رہی ہے اس مسئلہ کے حل کے لیے کوئی وظیفہ بتا دیں ۔

جواب

منگنی  کی حیثیت نکاح کے وعدہ  کی ہے، اور وعدہ کے حوالے سےشرعی حکم  یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے، تاہم  شدید مجبوری کی صورت میں اس کے خلاف کرنے کی گنجائش  ہوتی ہے، لہذا شدید شرعی مجبوری کی وجہ سے منگنی ختم کرنے کی  بھی گنجائش ہے، لیکن شدید عذر  کے بغیر منگنی ختم کرنا باعثِ گناہ ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر رشتہ لڑکی کی رضامندی سے  طے کیا گیا تھا ،تو اب لڑکی کا بلاکسی عذر ِ شدید کے رشتے سے انکار کرنا غلط طرزِ عمل ہے ،اور وعدہ کی خلاف ورزی ہے ،لیکن اگر رشتہ میں لڑکی کی رضامندی نہیں تھی ،تو پھر ان کا انکار درست ہے ،لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح نہیں ہو تا ۔

نیزسائل کو چاہیے کہ اچھے اور مناسب رشتہ کے لیے صدقِ دل سے نمازوں کے بعداورتہجد و غروب کے وقت دعا مانگیں، اور صلاۃ الحاجات کا اہتمام کریں، نیز { رَبِّ إِنِّي لِمَاأَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ} کا کثرت سے ورد کریں۔

قرآنِ کریم میں ہے :

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ."(المائده:1)"

"اے  ايمان والواپنے وعدوں كو پورا كرو."(بيان القرآن )

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن زيد بن أرقم - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " «إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي له، فلم يف ولم يجئ للميعاد، فلا إثم عليه» " رواه أبو داود، والترمذي.

(«عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي» ) : بفتح فكسر وأصله أن يوفي (له) أي: للرجل (فلم يف) أي: بعذر (ولم يجئ للميعاد) أي: لمانع (فلا إثم عليه) . قال الأشرف: هذا دليل على أن النية الصالحة يثاب الرجل عليها وإن لم يقترن معها المنوي وتخلف عنها. اهـ. ومفهومه أن من وعد وليس من نيته أن يفي، فعليه الإثم سواء وفى به أو لم يف، فإنه من أخلاق المنافقين، ولا تعرض فيه لمن وعد ونيته أن يفي ولم يف بغير عذر، فلا دليل لما قيل من أنه دل على أن الوفاء بالوعد ليس بواجب، إذ هو أمر مسكوت عنه على ما حررته، وسيجيء بسط الكلام على هذا المرام في آخر باب المزاح. (رواه أبو داود والترمذي)."

( كتاب الآداب، باب الوعد، ج:7، ص:3069،  ط:دارالفکر)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے ؛

"لايجوز ‌نكاح ‌أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، و إن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء، ج:1 ص:287ط: رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412101319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں