بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا نام زمل یا نوال رکھنا


سوال

بیٹی کا نام زمل (پردہ) اور نوال (تحفہ)کیسا ہے؟ ان کے درست مطلب بھی بتا دیں۔ پورا نام زمل عاسم ہوگا و  مطلب پردہ کی محافظ۔ 

جواب

’’زِمل‘‘  زا کے زیر اور  میم کے سکون کے ساتھ، بوجھ، کم زور، سست، کم تر کے معنی میں ہے، اور ’’زُمَل‘‘  زاء کے پیش اور میم کے فتحہ کے ساتھ بزدل، کم زور اور کمینہ کے معنیٰ میں ہے؛  اس لیے یہ نام رکھنا مناسب نہیں۔

البتہ ’’زَمَل‘‘ زاء اور لام دونوں کے فتحہ کے ساتھ تیزی کے معنیٰ میں ہے۔ اس مادے کا ایک معنیٰ کسی کے پیچھے چلنا، کسی کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھانا، کسی کا ساتھی ہونا وغیرہ بھی ہے۔ اس اعتبار سے ’’زَمَل‘‘ (zamal) نام رکھنا درست ہے، لیکن لوگ اس تلفظ کا خیال نہیں رکھیں گے اور دوسرے تلفظ کے اعتبار سے معنی مناسب نہیں ہے، لہٰذا  زیادہ اچھا یہ ہے کہ بچیوں کے نام ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی کے نام پر یا کم از کم اچھے معنی والا عربی نام رکھا جائے۔

"زمل" کا معنی (پردہ) کسی مستند لغت میں نہیں مل سکا۔

باقی  "نوال " کے معنی : بخشش ، تحفہ اور حصہ کے ہیں، یہ نام رکھنا جائز ہے۔

نیز سائل نے غالبًا "عاصم" کو "عاسم" لکھ دیا ہے، عاصم عربی زبان میں "ص" کے ساتھ ہے، اس کا معنی: بچانے والا، حفاظت کرنے والا۔ اور "عاسم" کے عربی میں مختلف معانی آتے ہیں، ان میں حفاظت کرنے والا معنی نہیں ہے۔

تاج العروس (ص: 7141، بترقيم الشاملة آليا):

"والزِّمْلُ بالكسرِ: الْحِمْلُ وفي حديثِ أبي الدَّرْداءِ : إنْ فَقَدْتُمُونِي لَتَفْقِدُنَّ زِمْلاً عَظِيماً يُرِيدُ حِمْلاً عَظِيماً مِنَ العِلْمِ". 

لسان العرب (11/ 311):

"والزِّمْل: الكَسْلان. والزُّمَل والزُّمَّل والزُّمَّيْلُ والزُّمَيْلَة والزُّمَّال: بِمَعْنَى الضَّعِيفِ الجَبان الرَّذْل؛ قَالَ أُحَيْحة:
وَلَا وأَبيك مَا يُغْني غَنائي، ... مِنَ الفِتْيانِ، زُمَّيْلٌ كَسُولُ
وَقَالَتْ أُمّ تأَبَّط شَرًّا: وَا ابْنَاهُ وَا ابْنَ اللَّيْل، لَيْسَ بزُمَّيْل، شَرُوبٌ للقَيْل، يَضْرب بالذَّيْل، كمُقْرَب الخَيْل. والزُّمَّيْلة: الضَّعِيفَةُ. قَالَ سِيبَوَيْهِ: غَلَب عَلَى الزُّمَّل الْجَمْعُ بِالْوَاوِ وَالنُّونِ لأَن مُؤَنَّثَهُ مِمَّا تَدْخُلُهُ الْهَاءُ. والزِّمْل: الحِمْل. وَفِي حَدِيثِ أَبي الدَّرْدَاءِ: لَئِن فَقَدْتموني لتَفْقِدُنَّ زِمْلًا عظيماً؛ الزِّمْل: الحِمْل، يريد حِمْلًا عَظِيمًا مِنَ الْعِلْمِ؛ قَالَ الْخَطَّابِيُّ: وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ زُمَّل، بِالضَّمِّ وَالتَّشْدِيدِ، وَهُوَ خطأٌ. أَبو زَيْدٍ: الزُّمْلة الرُّفْقة؛ وأَنشد:
لَمْ يَمْرِها حالبٌ يَوْمًا، وَلَا نُتِجَتْ ... سَقْباً، وَلَا ساقَها فِي زُمْلةٍ حَادِي
النَّضْرُ: الزَّوْمَلة مِثْلُ الرُّفْقة.... والزِّمْل عِنْدَ الْعَرَبِ: الحِمْل، وازْدَمَلَ افْتَعَلَ مِنْهُ، أَصله ازْتَمله، فَلَمَّا جَاءَتِ التَّاءُ بَعْدَ الزَّايِ جُعِلَتْ دَالًا. والزَّمَل: الرَّجَز؛ قَالَ:
لَا يُغْلب النازعُ مَا دَامَ الزَّمَل، ... إِذا أَكَبَّ صامِتاً فَقَدْ حَمَل
يَقُولُ: مَا دَامَ يَرْجُز فَهُوَ قَوِيٌّ عَلَى السَّعْيِ، فإِذا سَكَتَ ذَهَبَتْ قُوَّتُهُ؛ قَالَ ابْنُ جِنِّي: هَكَذَا رُوِّينَاهُ عَنْ أَبي عَمْرٍو الزَّمَل، بِالزَّايِ الْمُعْجَمَةِ، وَرَوَاهُ غَيْرُهُ الرَّمَل، بِالرَّاءِ أَيضاً غَيْرَ مُعْجَمَةٍ، قَالَ: وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صِحَّةٌ فِي طَرِيقِ الِاشْتِقَاقِ، لأَن الزَّمَل الخِفَّة والسُّرْعة، وَكَذَلِكَ الرَّمَل بِالرَّاءِ أَيضاً، أَلا تَرَى أَنه يُقَالُ زَمَلَ يَزْمُل زِمَالًا إِذا عَدَا وأَسرع مُعْتَمِدًا عَلَى أَحد شِقَّيه، كأَنه يَعْتَمِدُ عَلَى رِجْلٍ وَاحِدَةٍ، وَلَيْسَ لَهُ تَمَكُّنُ الْمُعْتَمِدِ عَلَى رِجْليه جَمِيعًا". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200659

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں