کیاکسی بچی کا نام سابقہ آسمانی کتاب انجیل کے نام پہ ’’انجیل‘‘ رکھا جا سکتا ہے؟
’’انجیل‘‘: حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل شدہ کتابِ الہی ہے، ج: اناجیل (مع)، ’’انجیل‘‘: یونانی لفظ ہے، جس کے معنی خوش خبری کے ہیں۔ (القاموس الوحید ، حرف الھمزہ، ص:137، ط: ادارہ اسلامیات)
لفظی اعتبار سے اگرچہ اس کا معنی درست ہے، لیکن یہ سابقہ آسمانی کتاب کا نام ہے، انسانوں کے ناموں کے لیے یہ لفظ مستعمل نہیں ہے، نیز مسلمانوں میں اس نام رکھنے کا رواج بھی نہیں رہا ہے، اس لیے ایسے نام سے اجتناب کرنا چاہیے، اس کے بجائے بچی کا نام صحابیات، نیک مسلمان خواتین یا اچھے بامعنی عربی ناموں پر رکھ لیا جائے۔
"وفي الفتاوى: التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه، والأولى أن لايفعل، كذا في المحيط". (فتاوی عالمگیری 5/362 ) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200555
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن