بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا نام جعرانہ رکھنا


سوال

لڑکی کا نام جعرانہ رکھنا کیسا ہے؟

جواب

"جعرانۃ" جیم کے کسرہ  (زیر) اور عین کے سکون کے ساتھ، جعر ، جعراً (باب فتح سے) مزاج کا خشک ہونا، اسی سے الجِعْران بھی ہے، بمعنیٰ گبریلا، اور  "جعرانۃ" طائف اور مکہ کے درمیان، مکہ سے تقریباً 22 کیلومیٹر  کی دوری پر واقع ایک مقام کا نام ہے، جہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا اور اسی مقام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کےلیے احرام باندھا تھا اور ابھی بھی اسی نام سے موسوم ہے۔

لہٰذا لڑکی کا نام "جعرانہ" رکھنا مناسب نہیں، اس کے علاوہ صحابیات یا صحیح معنیٰ و مفہوم  والا نام رکھاجائے، اس لیے کہ انسان کی ذات اور شخصیت پر نام کا اثر ہوتا۔

لسان العرب ميں میں ہے:

"قال ابن الأثير: الجعر ما يبس من الثفل في الدبر أو خرج يابسا؛ ومنه حديث  عمر: إني مجعار البطن   أي يابس الطبيعة؛ وفي حديثه الآخر: إياكم ونومة الغداة فإنها مجعرة؛ يريد يبس الطبيعة أي أنها مظنة لذلك. وجعر الضبع والكلب والسنور يجعر جعرا: خرئ. والجعراء: الإست .... والجعرانة: موضع؛ وفي الحديث: أنه نزل ‌الجعرانة، وتكرر ذكرها في الحديث، وهي موضع قريب من مكة، وهي في الحل وميقات الإحرام، وهي بتسكين العين والتخفيف، وقد تكسر العين وتشدد الراء."

(حرف الراء، فصل الجيم، ج:4، ص:141، ط:دار صادر)

المصباح المنير  میں ہے:

"‌‌(ج ع ر) : جعر السبع جعرا من باب نفع مثل: تغوط الإنسان ثم أطلق المصدر على الخرء فقيل جعر السبع واستعير الجعر لنجو الفأرة فقيل جعر الفأرة ثم استعير جعر الفأرة ليبسه وضئولته لنوع رديء من التمر فقيل فيه جعرور وزان عصفور.

والجعرانة موضع بين مكة والطائف وهي على سبعة أميال من مكة وهي بالتخفيف واقتصر عليه في البارع ونقله جماعة عن الأصمعي وهو مضبوط كذلك في المحكم وعن ابن المديني العراقيون يثقلون ‌الجعرانة والحديبية والحجازيون يخففونهما فأخذ به المحدثون على أن هذا اللفظ ليس فيه تصريح بأن التثقيل مسموع من العرب وليس للتثقيل ذكر في الأصول المعتمدة عن أئمة اللغة إلا ما حكاه في المحكم تقليدا له في الحديبية. وفي العباب والجعرانة بسكون العين وقال الشافعي المحدثون يخطئون في تشديدها وكذلك قال الخطابي."

(کتاب الجیم، الجیم مع العین، ج:1، ص:102، ط:المکتبة العلمية)

المناسك لابن ابي عروبۃ میں ہے:

"عن قتادة قال: سألت سعيد بن المسيب: أتمتع أحب إليك أم أعتمر إلى المحرم؟ قال: بل أقم، فإذا رأيت إهلال المحرم فاخرج إلى الجعرانة، فأهل منها بعمرة، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قسم بها مغانم حنين، وأهل منها بعمرة".

(سئل عن قوله: {وأتموا الحج والعمرة لله}، ص:81، رقم:47، ط:دار البشائر)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌ولد ‌له ‌ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه".

(کتاب النکاح، باب الولي في النكاح، الفصل الثالث، ج:2، ص:939، رقم:3138، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت ابو سعید اور  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: جس کے ہاں پچے کی پیدائش ہوجائے تو اسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو ادب سیکھائے، پھر جب بالغ ہو تو اس کی شادی کرائے، اگر بالغ ہوا اور اس (باپ) نے اس کی شادی نہ کرائی اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوا تو اس کا گناہ والد پر ہوگا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں