بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا خلع لے کر دوسری جگہ نکاح کرنا


سوال

میرے بیٹے کا نکاح ۲۰۱۷ میں ہوا اور رخصتی نہیں ہوئی، تقریبا ۵ سال بعد لڑکی یعنی میری بہو نے خلع لے کر دوسرا نکاح کر لیا اور اس کی رخصتی بھی ہو گئی،  جب کہ میرے بیٹے نے طلاق نہیں دی،  آیا لڑکی کا دوسرا نکاح جائز اور حلال ہے؟ واضح رہے کہ:

  1. شوہر عدالت میں حاضر  نہیں ہوا تھا۔
  2. شوہر خلع دینے پر راضی نہیں تھا۔
  3. خلع واقع ہونے کے بعد سے شوہر نے خلع پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا ۔
  4. اس سے پہلے یا بعد میں شوہر نے کوئی طلاق نہیں دی ہے۔
  5. خلع کے  کاغذات، جس میں لڑکی کا مؤقف اور عدالتی کار روائی موجود ہے، اس کی کاپی  ارسال ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب سائل کے بیٹے نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی،  خلع کے کاغذات پر دستخط  نہیں  کیے، اور  عدالتی خلع کو مہر کی رقم واپس لینے کی صورت میں قبول بھی نہیں کیا اور تا حال اس پر رضامند بھی نہیں ہے، جیسا کہ منسلکہ کاغذات اور سائل کی وضاحت سے معلوم ہو رہا ہے؛ تومنسلکہ   یک طرفہ فیصلہ کو شرعی خلع قرار نہیں دیاجاسکتا؛ اس لیے کہ شرعی خلع کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، جب کہ یہاں  شوہر رضامند نہیں،  نہ ہی اس نے اس فیصلے کو تسلیم کیا تھا؛ لہذا نکاح حسبِ سابق برقرار ہے،اور وہ لڑکی  بدستور اس کی بیوی ہے؛  اس لیے مذکورہ لڑکی کا کسی دوسرے شخص سے  نکاح کر لینا حرام ہے، اور شریعت میں ایسا نکاح باطل ہے، یعنی شرعاً اس لڑکی کا دوسرے شخص سے نکاح سرے سے  نہیں ہوا  ۔

احكام القرآن للجصاص ميں ہے:

"فلذالك قال أصحابنا : إنهما لايجوز خلعهما إلّا برضي الزوجين فقال أصحابنا : ليس للحكمين أن يفرقا إلّا برضي الزوجين، لأن الحكم لايملك ذالك فكيف يملكه الحكمان؟."

(باب الحكمين كيف يعملان ، ج: 2 ، ص: 240 ،ط: دارالكتب العلمية)    

فتاویٰ شامی میں ہے: 

" وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال: خالعتك و لم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع."

(کتاب الطلاق،باب الخلع، ج:3،ص:441، ط:ایچ ایم سعید)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(كتاب الطلاق، باب الخلع،ج:6،ص:173، دارالکتب العلمیة بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلًا."

(كتاب النكاح،مطلب في النكاح الفاسد،ج: 3،ص: 132، ط: سعيد)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "ميں ہے:

"( فصل ) : ومنها أن لاتكون منكوحة الغير ، لقوله تعالى : { والمحصنات من النساء } معطوفًا على قوله عز وجل : { حرمت عليكم أمهاتكم } إلى قوله: { والمحصنات من النساء } وهن ذوات الأزواج ، وسواء كان زوجها مسلمًا أو كافرًا."

(كتاب النكاح، ج:5، ص:446، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة ، كذا في السراج الوهاج ."

(كتاب النكاح ، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير ،ج: 6،ص: 496، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں