بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا نام حمیزہ رکھنے کا حکم


سوال

حمیزہ نام رکھنا کیسا ہے؟ کیایہ نام لڑکی کا رکھ سکتے ہیں؟

جواب

"حمیزہ" یہ حمیز کی مؤنث ہے، ح، م، ز اس کا مادہ ہے، اس کے معنی ہیں، تیز ہونا، خوش طبع ہونا اور ہوشیار و چالاک ہونا۔ مذکورہ معانی کے اعتبار سے یہ نام رکھا جاسکتا ہے، تاہم ناموں کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ لڑکے کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور لڑکی کے لیے اُمّہات المؤمنین، صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کوئی نام رکھا جائے، یا اچھا بامعنی عربی نام رکھا جائے۔

جامعہ کی ویب سائٹ پر اسلامی نام کے عنوان کے تحت اچھے بامعنی نام موجود ہیں، ان سے بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے، اس کا لنک درج ذیل ہے:

اسلامی نام

لسان العرب میں ہے:

"والحامز ‌والحميز: الشديد الذكي....

‌والحميز: الظريف".

([ز]، فصل الحاء المهملة،  ج:5، ص:399، ط:دار صادر - بيروت)

تاج العروس میں ہے:

"يقال: حامز وحميز: نز خفيف الفؤاد شديد ذكي ظريف.....

والحامز والحميز: الشديد الذكي".

(فصل الحاء المهملة مع الزاي، ‌‌حمز، ج:15، ص:117،118، ط:دار الهداية، ودار إحياء التراث وغيرهما)

القاموس الوحید میں ہے:

"حَمَزَ حَمْزاً: تیز ہونا۔

الحَمِیْزُ: (1) انتہائی ہوشیار۔ (2) چالاک و خوش طبع۔"

(بابُ الحَاء، ح __م، حمز، ص:315، ط:ادارہ اسلامیات)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں