کیا کسی ایسے شخص کی امامت جائز ہے جس کے خلاف کنواری لڑکی کو اغوا کرنے کے سلسلے میں باضابطہ پرچہ لگا ہوا ہو؟
اگر یہ بات تحقیق سے ثابت ہوجاۓ کہ امام واقعی مذکورہ جُرم میں ملوث ہے تو یہ امام فاسق کے حکم میں ہے، جب تک یہ اعلانیہ توبہ کرکے اپنے احوال کی اصلاح نہ کرلے اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر اس کی اقتدا میں نماز پڑھ لی گئی تو نماز اد ا ہوجائے گی اور اس کا اعادہ بھی واجب نہیں ہوگا، لیکن پرہیزگار امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا جو ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"كره إمامة الفاسق، ... والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طاعة اﷲ تعالی بارتكاب كبیرة. قال القهستاني: أي أو إصرار علي صغیرة. (فتجب إهانته شرعاً فلایعظم بتقدیم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده كون الکراهة في الفاسق تحریمیة".
(ص 303، ط: دارالکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے :
"(فاسق) من الفسق، وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر". (1/559، ط: سعيد)
وفيه أيضًا:
"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".
وفي الرد:
"أفاد أن الصلوة خلفهما أولى من الانفراد". (1/562)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144209200906
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن