بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی پندرہ سال کی عمر کے بعد یتیم نہیں رہتی


سوال

اگر ایک لڑکی کی عمر پندرہ سال سے زائد ہے۔وہ غیر شادی شدہ ہے اور اس کے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔تو کیا یتیموں کی مدد کے لیے ملنے والی امداد سے اس کی کفالت جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نابالغی  کی حالت میں جس بچے یا بچی کے باپ کا انتقال ہوجائے وہ یتیم کہلاتا ہے  جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے،بلوغت کے بعد کوئی(مرد وعورت )یتیم نہیں رہتا،  بلوغت کی علامت ظاہر نہ ہونے کی صورت میں بھی کوئی بھی  لڑکا یا لڑکی  پندرہ سال کے بعد یتیم شمار نہیں ہوتی ۔ لہٰذا اگر مذکورہ رقم خالص یتیم کی کفالت کے لیے ہی دی گئی ہے تو اس رقم سے مذکورہ لڑکی کی کفالت کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ مذکورہ لڑکی شرعا یتیم نہیں رہی ہے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"واليتيم اسم لمن مات أبوه قبل الحلم. قال - صلى الله عليه وسلم - : لا ‌يتم ‌بعد ‌البلوغ."

( کتاب الوصایا،‌‌ باب الوصية للأقارب وغيرهم، (6 /688) ط: سعید)

نیز فتاوی شامی میں ہے:

"(وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنة ولها ‌تسع ‌سنين) هو المختار كما في أحكام الصغار."

 (الدر المختار مع رد المحتار: کتاب المأذون، (6 /154) ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"بلوغ الغلام بالاحتلام أو الإحبال أو الإنزال، والجارية بالاحتلام أو الحيض أو الحبل، كذا في المختار. والسن الذي يحكم ببلوغ الغلام والجارية إذا انتهيا إليه خمس عشرة سنة عند أبي يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - وهو رواية عن أبي حنيفة   رحمه الله تعالى   وعليه الفتوی...وأدنى مدة البلوغ بالاحتلام ونحوه في حق الغلام اثنتا عشرة سنة، وفي الجارية تسع سنين، ولا يحكم بالبلوغ إن ادعى وهو ما دون اثنتي عشرة سنة في الغلام وتسع سنين في الجارية."

 (الفتاوى الهندية : کتاب الحجر، الباب الثانی فی الحجر للفساد، الفصل الثانی فی معرفة حد البلوغ، (5/ 61) ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں