بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے سے محبت کرنے کا حکم


سوال

 کچھ وقت کی بات ہے کہ مجھے ایک لڑکا بہت ہی اچھا لگنے لگا،  اور مجھے ہر وقت اسے دیکھنے اور اس سے باتیں کرنے کا دل کرتا رہتا ہے۔ میری اس سے ملاقات بھی ہوتی ہے،  اور میں نے اسے اپنے دل کی بات کہی بھی ہے۔ بات ایسی ہے کہ میں غیر جنسی ہوں ، مجھے جسمانی تعلقات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے،  اور نہ ہی میں اس طرف توجہ دیتا ہوں،  اور نہ ہی مجھے کسی پر یا اس پر ہوس آتی ہے،  شاید میں ہم جنس پسند ہوں،  میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرا پیار جائز ہے؟ کیونکہ امام مالک کےبقول محبت تو روحوں کا تعلق ہے،  شاید ہمارے درمیان روح کا ہی تعلق ہے۔  وہ میرا بہت خیال رکھتا ہے اور میں بھی،  اس نے کبھی مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا،  میرا سوال ہے کہ کیا ہمارا پیار جائز ہے ؟ اور میرا سوال یہ بھی کہ وہ مجھے کہتا ہے کہ میں تمہیں ساری زندگی اپنے ساتھ رکھوں گا، اگر بغیر جسمانی تعلقات کے اگر ہم ساتھ رہیں تو کیا کوئی غیر شرعی کام ہوگا اور وہ بھی ہے Asexual میں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں کسی لڑکے یانامحرم لڑکی سے محبت کرنا  جائز نہیں ہے، یہ شیطان کا وار ہوتا ہے،  اسی لیے  مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ نامحرم عورتوں کی طرح حسین لڑکوں  کو دیکھنے سےاجتناب کریں، اور احادیثِ  مبارکہ میں جا بجا نظروں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، اور نظروں کو شیطان کے تیروں میں سے کہا گیا ہے، اور  بد نظری کو آنکھوں کا  زنا کہا گیا ہے، غرض یہ ہے کہ شریعت نامحرم عورتوں اور مردوں کے آپس کے ایسے ناجائز محبت بھرے تعلقات کی بالکل اجازت نہیں دیتی،اور  خصوصاً کسی مرد سے دل بہلانا، نامحرم عورت کی بنسبت زیادہ اشد گناہ اور حرام ہے، احادیث میں اور سلف صالحین اور علماء نے اس کی شناعت وقباحت اور ممانعت کو اور زیادہ اشد قرار دیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: کسی امرد پر نظر مت جماؤ۔اور  حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا:میں کسی عالم پر کسی درندے سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا امرد سے ڈرتا ہوں۔ حضرت ابوسہل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عنقریب اِس اُمّت میں ایسے لوگ ہوں گے جن کو (بدفعلی کی وجہ سے) لُوطی کہا جائے گا ۔ اور وہ تین قسموں کے ہوں گے : ایک قسم وہ ہوگی جو صرف (أمرد کو) دیکھیں گے ، دوسری قسم وہ ہوگی جوہاتھ ملائیں گےاور تیسری قسم وہ ہوگی جو (العیاذ باللہ) اِس کام کو کریں گے۔ 

اور علامہ شامیؒ فرماتے ہیں کہ عورتوں کی طرف بد نظری شدید گناہ ہے، لیکن اَمرد  کی طرف نظرِ شہوت اشد گناہ ہے۔ اور ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ اَمرد کو دیکھنا حرام ہے، خواہ فتنے سے مامون اور محفوظ ہی کیوں نہ ہو۔

لہذا حسین(اَمرد)  لڑکوں سے محبت وعشق کرنا اور ان سے دل بہلانے کے لیے دوستی کرنا، اور تنہائی میں ان کے ساتھ بیٹھنا، اور گفتگو میں ان کی آواز سے اور ان کے نقشہ اور چہرہ اور آنکھوں وغیرہ سے لطف و مزے لینا ناجائز اور حرام ہے، کسی صورت بھی قطعاً اس کی اجازت نہیں، اور اس کی تاریکی عورتوں کے عشق ومحبت سے بھی شدید ہے، حرام تو دونوں ہیں، لیکن اَمرد سے عشق ومحبت حرام در حرام ہے ۔لہذا  اس سے میل جول اور تعلق بالکل ختم  کردیجیے، اور کسی متبعِ  سنت اللہ والے سے تعلق قائم کرکے  ان کو اپنا حال سنا کر علاج دریافت  کیجیے،  اور اس پر عمل کرکے عشقِ مجازی کے بجائے عشقِ حقیقی یعنی مالکِ دوجہاں کے عشق کے زینے طے کریں  کہ جس سے آخرت کے ساتھ دنیا بھی شاد وآباد ہوگی۔

میزان الاعتدال میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أن ‌يحد ‌الرجل ‌النظر ‌إلى ‌الغلام ‌الأمرد."

(ج: 4، ص: 327، رقم: 9320، ط: دار المعرفة)

شعب الإيمان میں ہے:

"عن أبي سهل قال: ‌سيكون ‌في ‌هذه ‌الأمة ‌قوم ‌يقال ‌لهم ‌اللوطيون على ثلاثة أصناف: صنف ينظرون وصنف يصافحون وصنف يعملون ذلك العمل."

(باب في تحريم الفروج وما يجب من التعفف عنها، ج: 4، ص: 359، ط: دار الكتب العلمية، بيروت- لبنان)

'إحکام النظر فی أحکام النظر بحاسۃ البصر' میں ہے:

"قال عمر بن الخطاب: "ما أنا على عالم من سبع ضار بأخوف عليه من غلام أمرد."

(‌‌الباب الثالث في نظر الرجال إلى الرجال، ص: 339، ط: دار القلم، دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"هو الشاب الذي طر شاربه ولم تنبت لحيته قاموس. قال في الملتقط: الغلام إذا بلغ مبلغ الرجال ولم يكن صبيحا فحكمه حكم الرجال، وإن كان صبيحا فحكمه حكم النساء، وهو عورة من فوقه إلى قدمه... أقول: وهذا شامل لمن نبت عذاره، بل بعض الفسقة يفضله على الأمرد خالي العذار... أن حرمة النظر إليه بشهوة أعظم إثما لأن خشية الفتنة به أعظم منها ولأنه لا يحل بحال، بخلاف المرأة كما قالوا في الزنى واللواطة، ولذا بالغ السلف في التنفير منهم وسموهم الأنتان لاستقذارهم شرعا."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة، ج: 1، ص: 407، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"قال السلف: اللوطيون أصناف: صنف ينظرون، وصنف يصافحون، وصنف يعملون، وفيه إشارة إلى إنه لو علم منه الشهوة أو ظن أو شك حرم النظر كما في المحيط وغيره اهـ."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في النظر والمس، ج: 6، ص: 365، ط: سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"يحرم النظر إلى الأمرد إذا كان حسن الصورة أمن من الفتنة أم لا، هذا هو المذهب الصحيح المختار فإنه يشتهى وصورته في الجمال كصورة المرأة بل ربما كان كثير منهم عند المحققين نص عليه الشافعي وحذاق أصحابه وذلك ; لأنه في معنى المرأة أحسن صورة من كثير من النساء بل هم بالتحريم أولى لما يتمكن في حقهم من طرق الشر ما لا يتمكن من مثله في حق المرأة اه. ومذهبنا ومذهب الجمهور أنه إنما يحرم النظر إذا كان على وجه الشهوة والذي ذكره إنما هو من باب الاحتياط في الدين فإنه من رعى حول الحمى يوشك أن يقع فيه (رواه مسلم)."

(كتاب النكاح، باب النظر، ج: 5، ص: 2051، رقم: 3100، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

وفيه أيضاً:

"قال النووي: ‌وينبغي ‌أن ‌يحترز ‌عن ‌مصافحة ‌الأمرد الحسن الوجه، فإن النظر إليه حرام كما بسطنا القول فيه في كتاب النكاح، وقال أصحابنا: كل من حرم النظر إليه حرم مسه، بل مسه أشد."

(كتاب الآداب، باب المصافحة والمعانقة، ج: 7، ص: 2963، رقم: 4677، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں