بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے کو نکاح کا بتاکر اس کی غیر موجودگی میں گھروالوں کا اس کا نکاح کرنا


سوال

ایک بندہ  ملک  سے باہر رہتا ہے، اس کے گھر والوں نے اس کا نکاح کیا ، وہ لڑکا باہر ہے ، نکاح کے بارے میں لڑکے کو بتایا تھا، لیکن  ایجاب و قبول کے وقت نہیں پوچھا  تھا، نکاح سے ایک دن پہلے بتایا کہ کل آپ کا نکاح ہے،  اب یہ نکاح ہو سکتا ہے کہ نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  اگر  لڑکے سے  نکاح کی اجازت نہیں لی تھی، صرف اس کو بتادیا تھا، اور اس کی طرف سے کسی نے نکاح کی مجلس میں   خود  گواہوں کی موجودگی میں  ایجاب یا قبول کرلیا اور اس کا  نکاح کردیا تو یہ "نکاح فضولی" ہوا، جو  مذکورہ لڑکے کی اجازت پر موقوف ہوگا، اب اگر لڑکا اس نکاح کی زبانی  اجازت دے دے ،  یا عملًا اجازت دے دے کہ مہر وغیرہ بھیج دے، یا بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرلے تو دونوں صورتو ں میں یہ نکاح  منعقد ہوجائے گا۔

اور اگر نکاح سے ایک دن پہلے لڑکے سے نکاح کی اجازت لے لی  تھی اور  اس   کی  طرف سے وکیل بن    کر  کسی نے اس کا نکاح  گواہوں کی موجودگی میں کردیا تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے۔

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"وتثبت الإجازة لنكاح الفضولي بالقول والفعل، كذا في البحر الرائق"۔(1/ 299)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"من فعل يدل على الرضا، ومقتضاه أن قبض المهر ونحوه رضا كما مر من جعله رضا دلالة في حق الولي، وبه صرح في الخانية بقوله: الولي إذا زوج الثيب فرضيت بقلبها ولم تظهر الرضا بلسانها كان لها أن ترد؛ لأن المعتبر فيها الرضا باللسان أو الفعل الذي يدل على الرضا نحو التمكين. من الوطء وطلب المهر وقبول المهر دون قبول الهدية، وكذا في حق الغلام. اهـ. (قوله: ودخوله بها إلخ) هذا مكرر، والظاهر أنه تحريف، والأصل: "وخلوته بها"، فإن الذي في البحر عن الظهيرية: ولو خلا بها برضاها، هل يكون إجازة؟ لا رواية لهذه المسألة، وعندي أن هذا إجازة. اهـ. وفي البزازية: الظاهرة أنه إجازة"۔  (3/ 62)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں