بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے کے عقیقے میں ایک کٹا ذبح کرنا کافی ہے


سوال

لڑکے  کے عقیقے  میں ایک کٹاذبح کرنا کافی ہے یا  وہ بھی دو ذبح کرنا ضروری ہے؟

جواب

عقیقہ میں جانور ذبح کرنے کے احکام وہی ہیں جو قربانی میں ہے اور قربانی میں بڑے جانور کو ذبح کرنےسے سات قربانیاں ہو جاتی ہیں، اسی طرح ایک بڑے جانور(کٹا، گائے،بیل وغیرہ)کو ذبح کرنے سے سات  (بچیوں کے) عقیقے  ہوجائیں گے،  لہذاصورتِ مسئولہ میں لڑکے کے عقیقے میں ایک کٹا ذبح کرنا کافی ہے،اور اگر  کسی  اور بچے کا  عقیقہ نہیں ہوا ہو تو  اسے بھی شامل کر سکتے ہیں۔

'سنن أبي داود" میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البقرة ‌عن ‌سبعة، ‌والجزور ‌عن ‌سبعة."

 (‌‌كتاب الأضاحى، باب في البقرة والجزور، رقم الحديث:2808، ج:4، ص:432، ط:دار الرسالة العالمية)

"المعجم الصغير للطبراني"  میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: من ‌ولد ‌له ‌غلام ‌فليعق ‌عنه ‌من ‌الإبل ‌أو ‌البقر ‌أو ‌الغنم."

(‌‌باب الألف، ‌‌باب من اسمه إبراهيم، رقم الحديث:229، ج:1، ص:150، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.

(کتاب الأضحیة،  ج: 6، ص: 336، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

’’وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد، ذكره محمد ولم يذكر الوليمة. وينبغي أن تجوز؛ لأنها تقام شكراً لله تعالى على نعمة النكاح ووردت بها السنة، فإذا قصد بها الشكر أو إقامة السنة فقد أراد القربة‘‘. 

(کتاب الأضحیة،  ج: 6، ص: 326، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں