بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے کی رضامندی کے بغیر اُس کا نکاح


سوال

میرے والد محترم میرا  رشتہ اپنی پسند  کی جگہ پر کر رہے ہیں اور مجھ سے بالکل بھی نہیں پوچھ  رہے کہ مجھے پسند ہے یا نہیں، گو یا وہ جس سے میرا رشتہ کر رہے ہیں اس بچی کی عمر میں اور میری عمر میں دس سال کا فرق ہے اور میں پسند بھی نہیں کرتا اس کو،  مگر میرے ابو کا یہ کہنا  ہے کہ اسلام میں بس لڑکی سے رضا پوچھنے کا حق ہے،  لڑکے کی رضا مندی پوچھنے کا حق کہیں پر بھی نہیں،  کیا واقعی ایسا ہے کہ  لڑکے  سے  اس کی  رضا مندی پوچھنے کا حق نہیں؟ کیا ہمارا اسلام یہی کہتا ہے  کہ  باپ جہاں چاہے لڑکے کا اپنی مرضی سے نکاح  کرے۔انکار کرنے کی صورت میں نافرمان ہو  جاتا ہوں ان کی نظر میں اور میرے ابو کے علاہ کوئی  خوش نہیں اس رشتے سے،  اس پر کوئی اسلام سے مجھے جواب چاہیے؛ تاکہ میں ابو کو قائل کر سکوں!

جواب

عاقل بالغ لڑکے  پر نکاح کے معاملہ میں جبر اور زبردستی کرنا شرعًا درست نہیں ہے، والدین کو چاہیے کہ نکاح کے معاملہ میں  جہاں تک ہوسکے (شرعی حدود میں رہتے ہوئے) اپنے بچوں  کی پسند کی رعایت کریں، اُن کی رضامندی کے بغیر اُن کا نکاح نہ کریں،  نکاح کے معاملہ میں لڑکے  کی رضامندی  لینا  ضروری ہے،  بلکہ جب تک لڑکا  نکاح کی اجازت نہ دے  یا خود قبول نہ کرے اُس کا  نکاح درست نہ ہو گا۔

یہ بات درست نہیں ہے کہ "اسلام میں بس لڑکی سے رضا پوچھنے کا حق ہے، لڑکے کی رضامندی پوچھنے کا حق کہیں پر بھی نہیں"، اسلام میں لڑکی کی رضامندی پوچھنے کی تاکید اس لیے کی گئی ہے کہ لڑکی شرم و حیا کی وجہ سے خاموش رہے گی اور رشتے سے منع نہیں کرسکے گی، لہٰذا ایسا نہ ہو کہ اس کی رضامندی کے خلاف رشتہ  ہوجائے، اس لیے اس سے اجازت لینا ضروری ہے، جب کہ لڑکا عمومًا اپنے نکاح کے معاملات میں کھل کر بات کرتا ہے، بلکہ نکاح کے انتظامات بھی عمومًا خود کرتا ہے، اورطبعی و فطری طور پر اس میں حجاب نہیں ہوتا، اس لیے نکاح کے وقت لڑکا خود بلند آواز سے واضح الفاظ میں نکاح قبول کرنے کا اظہار کرتا ہے۔ بہرحال اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح میں لڑکی کی طرح لڑکے کی رضامندی شامل ہونا بھی ضروری ہے۔

لیکن اولاد کو بھی چاہیے کہ والدین کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں ؛ اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں