بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے والوں کا لڑکے کی بیماری کو ظاہر نہ کرنا


سوال

میں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک دینی گھرانے میں کی ،دیکھنے میں لڑکا دین دار اور سمجھدار تھا ،شادی کے بعد معلوم ہوا کہ لڑکا ذہنی اعتبار سے معذور ہے،اور کئی قسم کی ذہنی بیماریوں کی دوائی کھاتا ہے ،اس کا بھی علم ہوا کہ دوائیاں گذشتہ دس بارہ سال سے کھا رہا ہے ،اس حوالہ سے اس کے والد صاحب سے بات بھی کی ،انہوں نے ہمیں یہ شادی سے پہلے کچھ نہیں بتایا تھا ،ڈاکٹروں سے معلوم کیا تو انہوں نے بتلایا کہ یہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہے جو بڑھتی چلی جاتی ہے ،نیز اس کی وجہ سے وہ حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر بھی نہیں ہے ،شادی کو ایک ماہ گزرنے کو ہے اس نے ابھی تک حقوق زوجیت ادا  ہیں کیے ہیں ،اور نہ ہی اس کا امکان نظر آتا ہے ،اس لیے کہ وہ اپنی بیوی سے اس طرح کی کوئی بات بھی نہیں کر رہا ہے ،ان دوائیوں کی وجہ سے اس میں لڑکیوں والے ہارمون بڑھ جاتے ہیں ،اور جیسے ہی وہ دوائیاں چھوڑے گا تو حد سے زیادہ غصہ اور چڑ چڑا پن شروع ہو جائے گا ،اور تشدد بھی کر سکتا ہے ،نیز آگے جا کر یہ بیماری پاگل پن کی طرف بھی جائے گی ،نیز اس کا رویہ اور حرکتیں بچوں جیسی بھی ہیں ،وہ کوئی فیصلہ باپ کے بغیر نہیں کر سکتا ہے ۔

1)اس حوالہ سے ان کے والدین سے تفصیلی بات کرنی ہے ،آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا ہم مذکورہ رشتہ ختم کر سکتے ہیں ؟

2)نیز اس صورت میں خلع کا کیا طریقہ ہو گا ؟

3)کیا اس طرح لڑکے کے والد کا ہمیں نہ بتانا خیانت ہے ؟ان کے لیے کیا وعید ہے؟

4)اگر ہم خلع لیتے ہیں تو لڑکے کے حق میں ظلم تو نہیں ہے؟

جواب

1-2)صورت مسئولہ میں اگر دونوں میاں بیوی کے درمیان نباہ مشکل  ہے تو اس صورت میں سائل لڑکے کے والدین سے مذکورہ رشتہ ختم کرنے کی بات کر سکتا ہے۔اگر لڑکا رضامندی سے طلاق دے دے تو ٹھیک ،ورنہ لڑکی اپنے مہر کے عوض خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے ۔

3)  اگر لڑکے والوں نے  لڑکی کے اولیاء کو مطمئن کیا کہ  اس میں کوئی بیماری وغیرہ نہیں ہے اور یہ لڑکا بالکل صحیح ہےتو پھر یہ دھوکہ دہی اور خیانت ہے ۔

4)ظلم نہیں ہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفی القھستانی عن شرح الطحاوی: السنۃ اذا وقع بین الزوجین اختلاف ان یجتمع اھلہما لیصلحوا بینہما ، فان لم یصطلحا جاز الطلاق و الخلع ۔وھذا ھو الحکم المذکور فی الآیۃ۔"

(باب الخلع جلد ۳  ص۴۴۱ مکتبہ ایچ ایم سعید)

الدر المختارمیں ہے:

"(ولا يتخير أحدهما) أي الزوجين (بعيب الآخر) فاحشا كجنون وجذام وبرص ورتق وقرن، وخالف الأئمة الثلاثة في الخمسة لو بالزوج، ولو قضي بالرد صح فتح۔۔۔قلت: وأفاد البهنسي أنها لو تزوجته على أنه حر، أو سني، أو قادر على المهر والنفقة فبان بخلافه، أو على أنه فلان بن فلان فإذا هو لقيط، أو ابن زنا كان لها الخيار فليحفظ"

وفي الرد :(قوله: ولا يتخير إلخ) أي ليس لواحد من الزوجين خيار فسخ النكاح بعيب في الآخر عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وهو قول عطاء والنخعي وعمر بن عبد العزيز وأبي زياد وأبي قلابة وابن أبي ليلى والأوزاعي والثوري والخطابي وداود الظاهري وأتباعه. وفي المبسوط أنه مذهب علي وابن مسعود - رضي الله تعالى عنهم - فتح ۔۔(قوله: لها الخيار) أي لعدم الكفاءة. واعترضه بعض مشايخ مشايخنا بأن الخيار للعصبة.

قلت: وهو موافق لما ذكره الشارح أول باب الكفاءة من أنها حق الولي لا حق المرأة لكن حققنا هناك أن الكفاءة حقهما، ونقلنا عن الظهيرية: لو انتسب الزوج لها نسبا غير نسبه فإن ظهر دونه وهو ليس بكفء فحق الفسخ ثابت للكل، وإن كان كفؤا فحق الفسخ لها دون الأولياء، وإن كان ما ظهر فوق ما أخبر فلا فسخ لأحد. وعن الثاني أن لها الفسخ لأنها عسى تعجز عن المقام معه وتمامه هناك، لكن ظهر لي الآن أن ثبوت حق الفسخ لها للتغرير لا لعدم الكفاءة بدليل أنه لو ظهر كفؤا يثبت لها حق الفسخ لأنه غرها، ولا يثبت للأولياء لأن التغرير لم يحصل لهم، وحقهم في الكفاءة، وهي موجودة، وعليه فلا يلزم من ثبوت الخيار لها في هذه المسائل ظهوره غير كفء، والله سبحانه أعلم"

(کتاب الطلاق ،باب العنین ،ج:3،ص:453،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں