بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکا اور لڑکی کا دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرنا


سوال

ایک لڑکا دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکی کو کہتا ہے کہ میں پانچ ہزار روپے حق مہر کے ساتھ آپ کو اپنی بیوی بناتا ہوں اور لڑکی زبان سے قبول کر لیتی  ہے تو شریعت کا کیا حکم ہو گا؟

جواب

اگر کوئی لڑکا دو گواہوں کی موجودگی میں  عاقلہ بالغہ لڑکی سے کہے کہ ’’میں پانچ ہزار روپے  حق مہر کے ساتھ آپ کو اپنی بیوی بناتاہوں ‘‘ اور لڑکی قبول کرلے تو اس سے نکاح منعقد ہوجائے گا ، البتہ اگر لڑکا لڑکی کا کفو (کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین، دیانت،  نسب، مال و  پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو، اس سے کم نہ ہو، نیز  کفاءت میں مرد  کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی  کے  ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔ ) نہیں ہو  تو لڑکی کے والد  / سرپرست کو اس نکاح کا علم ہونے کے بعد عدالت سے رجوع کرکے  نکاح ختم کرنے کا حق  حاصل ہوگا ۔

 باقی یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ  والدین اور معاشرے سے چھپ کر نکاح کرنا مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ  ساتھ  بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، خصوصاً لڑکی کی طرف سے ایسا اقدام فطری حیا اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، عموماً پسند کی شادی میں وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ  ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجۃً ایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اور رشتوں کی جانچ پڑتال کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائے دار ثابت ہوتے ہیں،شریعت نے بھی یہی تعلیم دی ہے اور بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً   گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ  اپنے ذمہ کوئی بوجھ  اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔

 نیز شریعت نے لڑکے، لڑکی کے نکاح کا اختیار والدین کو دے کر انہیں بہت سی نفسیاتی و معاشرتی الجھنوں سے بچایا ہے، اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے ہوئے لڑکے یا لڑکی کا از خود آگے بڑھنا  نعمتِ خداوندی  کی ناقدری ہے، بےشمار واقعات شاہد ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں آکر کیے گئے نادانی کے فیصلے بعد کی زندگی کو اجیرن کرڈالتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(كل لفظ وضع لتملیک عین )مثل كونی امراءة ..... وانه ينعقد في الكل مع القبول."

(4/ 79 ط: دارالكتب العلميه)

وفیه  أيضا:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب.

(قوله: وشرط حضور شاهدين) أي يشهدان على العقد".

(كتاب النكاح،3 / 21 - 23، ط: دار الفكر)

وفیه  أيضا:

"( فنفذ نكاح حرة مكلفة لا ) رضا ( ولي ) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا ( وله ) أي للولي (إذا كان عصبةً) ولو غير محرم كابن عم في الأصح، خانية. وخرج ذوو الأرحام والأم وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح ( ما لم ) يسكت حتى ( تلد منه)". 

( كتاب النكاح ، باب الولي، 3 /55 ، 56،ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310100657

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں