بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکا اور لڑکی کا اکیلے خود اپنا نکاح کرنے (ایجاب و قبول اور نکاح پڑھانے) کا حکم


سوال

اگر لڑکا اور لڑکی نکاح کرنا چاہتے ہوں تو کیا وہ اکیلے نکاح پڑھ سکتے ہیں ؟ کیا وہ خود ہی  اپنانکاح پڑھا سکتے ہیں ؟ کیا گواہوں کا ہونا ضروری ہے؟ کیا نکاح خواں کا ہونا ضروری ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے  دو  عاقل ،بالغ مسلمان مرد،  یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں اور اگر لڑکا لڑکی نہ ہوں تو ان کے وکیلوں کی موجودگی میں  ایک ہی مجلس میں  ایجاب و قبول کرنا   ضروری ہے، ان دونوں شرائط کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا،  نیز معلم یا خطیب  سے نکاح پڑھوانا کوئی لازمی امر نہیں ہے، جس شخص کو بھی مسائل شریعت سے بخوبی  واقفیت ہو، ایجاب و قبول کی درست تعبیر کرسکتا ہو  ، دین دار ہواور نکاح کا مسنون خطبہ پڑھ سکتا ہو ، اس سے نکاح پڑھوانا مستحب ہے،نیز عاقل بالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی ہوجاتاہے، اگرچہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا  ناپسندیدہ ہے۔

سُننِ ترمذی شریف میں ہے:

" روى أصحاب قتادة عن قتادة عن جابر بن زيد عن ابن عباس: ‌لا ‌نكاح ‌إلا ‌ببينة".

(‌‌باب ما جاء لا نكاح إلا ببينة، ج:3، ص:403، رقم الحديث:1104، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي میں ہے:

"عن عمران بن حصین، أن النبي صلی اللہ علیه وسلم قال: لانکاح إلا بولي، وشاهدي عدل".

 (‌‌باب النكاح بغير ولي، ج:6، ص:195، رقم الحديث:10473، ط:المجلس العلمي- الهند، توزيع المكتب الإسلامي - بيروت)

المعجم الأوسط للطبراني میں ہے:

"عن عروة، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لا ‌نكاح ‌إلا ‌بولي ‌وشاهدي ‌عدل".

(ج:9، ص:117، رقم الحديث:9291، ط:دار الحرمين - القاهرة)

ہدایہ میں ہے:

"قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة " ‌وينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول زوجني فيقول زوجتك."

"قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه:اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود".

(کتاب النکاح، مدخل، ج:1، ص:185، ط:دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب".

(كتاب النكاح، ج:3، ص:22/23، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں