بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی اجازت کے بغیر لڑکا لڑکی کا نکاح کرنا


سوال

مجھے یہ پوچھنا تھا کہ لڑکی کی عمر چالیس سال ہے اور وہ کنواری تھی اور ہم ایک دوسرے کو سترہ سال سے پسند کرتے تھے اور لڑکی نے اپنے گھر والوں کو منانے کی  بہت کوشش کی،  پر وہ نہیں مانے اور اس کی بس بہنیں مان گئی تھیں، اور ہم نے پھر نکاح کر لیا تھا اور میرے ساتھ میرے دو بھائی تھے جب ہم نے نکاح کیا اور ہمارا نکاح بھی ہو گیا ہے اور ہم نے ہمبستری بھی کرلی ہے اور اب لڑکی کے گھر والے مان گئے ہیں،  یعنی اس کی ماں بھی،  مگر اس کے والد صاحب کو فالج ہے،  ان کو نہیں منایا ہے،  اور میں لڑکی کو کہتا بھی رہتا ہوں کہ اپنے والد صاحب کو مناؤ،  پر ان کے والد صاحب سے جو بھی بات کرو وہ جلدی ہی غصہ کرتے ہیں اورہر بات  کا الٹا مطلب نکالتے ہیں یعنی شور ڈالتے ہیں،  مجھے اس بارے میں رہنمائی فرمائی جائے ہم نے گناہ سے بچنے کے لیے نکاح کیا تھا ۔

جواب

واضح رہے کہ  اگر عاقلہ بالغ لڑکا لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہےاگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر    غیر کفو میں نکاح کیا   تو   اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو  عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء   کو وہ نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا   اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ نکاح شرعاً منعقد ہو چکا اور اگر لڑکا لڑکی کا کفو بھی ہے تو اولیاء کو اعتراض کا نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، باقی والدین کی رضامندی کے بغیر  نکاح کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسلامی معاشرتی احکام اور آداب کی روشنی میں والدین اولاد کے لیے فیصلہ کرتے ہیں،  یا اولاد والدین کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرتے ہیں،  بہر حال ان معاملات میں سرپرستی بزرگوں کی ہونی چاہیے ، تاہم نکاح شرعاً منعقد ہوچکاہےاور باقی گھر والے بھی راضی ہوگئے ہیں تو  لڑکا ، لڑکی کو  والد کو منانے اور ان کوراضی کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے والد کو بھی اب راضی ہوجانا چاہیے  اور نارضگیاں مٹاکر رشتوں اور تعلقات کو استوار کرلینا چاہیے، چالیس سال عمر ہوچکی ہے تو اب مزید انتظار کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

نیز بچہ جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیےاگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے،  ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا؛ لہذا والدین کو چاہیے  جب لڑکی یا لڑکا بالغ ہوجائیں اور مناسب رشتہ میسر ہو تو نکاح میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ‌في ‌التوراة ‌مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنة ولم يزوجها فأصابت إثما فإثم ذلك عليه «. رواهما البيهقي في» شعب الإيمان "

(کتاب النکاح ، باب الولي فی النکاح و استئذان المراۃ جلد ۲ ص : ۹۳۹ ط : المکتب الاسلامي ۔ بیروت)

ترجمہ:"تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔"

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض.........وفي البزازية ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكرا كانت أو ثيبا على قول الإمام الأعظم وهذا إذا كان لها ولي فإن لم يكن صح النكاح اتفاقا، كذا في النهر الفائق ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما."

(کتاب النکاح ، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح جلد ۱ ص : ۲۹۲ ط : دارالفکر)

فتاو ی شامی میں ہے:

"ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:

إن الكفاءة في النكاح تكون في … ست لها بيت بديع قد ضبط

نسب وإسلام كذلك حرفة … حرية وديانة مال فقط."

(کتاب النکاح ، باب الکفاءۃ جلد ۳ ص : ۸۶ ط : دارالفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"ولأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشة للخسيس فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش."

(کتاب النکاح ، فصل فی الکفاءۃ جلد ۳ ص : ۲۹۳ ط : دار الفکر ، لبنان)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311100317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں