بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکا جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا اس کی ماں سے اس نے زنا کردیا، تو کیا اب لڑکا لڑکی سے نکاح کرسکتاہے؟


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتاہے  اور وہ اس کے گھر والوں کو بھی نام دیتاہے، پھر صورتِ حال کچھ اس طرح ہوجاتی ہےکہ وہ لڑکا جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، اُس کی ماں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کچھ آگے نکل جاتاہے اور اُن دونوں سے جانے ان جانے میں زنا ہو جاتاہے، لیکن بعد میں ان دونوں کو یہ احساس ہوجاتاہے کہ بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے، وہ اللہ سے توبہ کرکے دوبارہ نہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، اب یہ لڑکا اس کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، تو اس میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس لڑکے نے جس عورت سے زنا کیاہے، اگر چہ دونوں نے زنا سے توبہ بھی کی  ہے، لیکن پھر بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے مذکورہ عورت کی بیٹی (جس سے مذکورہ لڑکا شادی کرنا چاہتاہے)  اس لڑکے پر حرام ہوگئی ہے، کسی بھی صورت میں مذکورہ لڑکا اس عورت کی بیٹی سے شادی  نہیں کرسکتا۔

نیز اس لڑکے کو چاہیے کہ وہ مذکورہ لڑکی کی والدہ اور اس لڑکی سے رابطہ ختم کردے۔

فتاوى شامي میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) .... (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى

(قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها. اهـ."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:32، ط:سعيد)

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"(القسم الثاني المحرمات بالصهرية) . وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علون (والثانية) بنات الزوجة وبنات أولادها وإن سفلن بشرط الدخول بالأم، كذا في الحاوي القدسي سواء كانت الابنة في حجره أو لم تكن، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان .... وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير."

(كتاب النكاح، الباب الباب الثالث الفصل الثاني المحرمات باالصهرىة، ج:1، ص:274، ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں