بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکا حقوق کی ادائیگی نہیں کر رہا اور خلع کا مطالبہ کر رہا ہے


سوال

آج سے 4 ماہ پہلے آن لائن نکاح ہوا تھا، مولانا کا دستخط بھی نہیں ہے، لڑکی کا بھی نہیں ہے اور گواہوں کا بھی نہیں ہے۔ کیا یہ شادی ہوگئی ؟

لڑکی اپنی ماں کے گھر ہے، لڑکا خلع چاہتا ہے، لڑکا لڑکی کو طلاق کی دھمکی دیتا ہے، اس کے حقوق پورے کرنے کو تیار نہیں ہے، ملازمت نہیں ہے، شادی کے دوسرے ہفتے  میں لڑکی کا  14 تولہ سونا بیچ کر کھا گیا، حق مہر بھی ادا نہیں کیا، اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

 واضح رہے کہ جان دار کی تصویر یا ویڈیو بنانا اور دیکھنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ آن لائن ویڈیو کالنگ کے عنوان سے ہی کیوں نہ ہو، نیز نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے۔

بصورتِ مسئولہ میں اگر آن لائن نکاح میں فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق کسی ایسے آدمی کو اپنا وکیل بنائے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان ،عاقل ، بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرچکا تھا اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرچکا تھا تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوگیاہے۔

لیکن اگر مذکورہ طریقہ پر نکاح نہیں کیا گیا، غائب نے نکاح کی مجلس میں کسی کو  اپنا وکیل نہیں بنایا تھا تو نکاح منعقد نہیں ہوا،نکاح منعقد نہ ہونے کی صورت میں حقوق و مہر کی ادائیگی کا ذمہ لڑکے پر نہیں ہے۔

اگر نکاح  مذکورہ طریقہ کے مطابق ہوا تھا تو  شوہر کے ذمہ بیوی کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے، میاں بیوی کے خاندان کے سمجھ دار افرادبیٹھ کر دونوں میں نا اتفاقی کو دور کرنے اور صلح کرانے کی کوشش کریں،  صلح نہ ہوسکنے کی صورت میں لڑکے کو  طلاق  یا  خلع پر راضی کیا  جائے ، اگر لڑکا خلع کا ہی مطالبہ کرے، لیکن اس کی طرف سے حقوق کی ادائیگی نہ کی جارہی ہو تو ایسی صورت میں لڑکے کا خلع کے عوض پیسوں یا مہر کی معافی  کا مطالبہ کرنا مکروہ ہے، البتہ  اگر لڑکی  اس نکاح کو ختم کرنا چاہتی ہے تو  شوہر سے خلع لے لے، اگرسائلہ اپنے شوہر سے خلع لے گی تو شوہر کے ذمہ سے مہر کی ادائیگی ساقط ہوجائے گی۔

لڑکی کے سونے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ  اگر وہ سونا لڑکی کی رضامندی کے بغیر یا قرض کے طور پر لیا تھا تو لڑکا  14 تولہ سونا یا اس کی موجودہ قیمت لوٹانے کا پابند ہے۔

الدر المختار مع حاشیتہ ردالمحتار  (3 / 445):

"(وكره) تحريمًا (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضًا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه، فتح  وصحح الشمني كراهة الزيادة وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق.
و في الرد: (قوله: وكره تحريما أخذ شيء) أي قليلًا أو كثيرًا،  والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعًا؛ لقوله تعالى: {فلا تأخذوا منه شيئًا} إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث، وتمامه في الفتح، لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي : أخرج ابن جرير عن ابن زيد في الآية قال ثم رخص بعده فقال: { فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به } قال: فنسخت هذه تلك ا هـ  وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت اهـ أي سواء كان النشوز منه أو منها أو منهما لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابت بالإجماع وبقوله تعالى { ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا } البقرة 231 وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ ما لها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم."

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144205200639

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں