بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکا لڑکی کی بلوغت کی عمریں


سوال

 آج کل کے حساب سے لڑکا لڑکی کی بلوغت کی عمریں عموماً کتنی ہیں؟ یعنی کتنی عمر میں لڑکا لڑکی بلوغت کو پہنچ جاتے ہیں؟

جواب

لڑکی کی بلوغت کی کم سے کم عمر نو سال ہے، نو سال پورے ہونے کے بعد جب بھی بلوغت کی کوئی علامت (حیض آنا یا حمل ٹھہرنا وغیرہ) لڑکی میں ظاہر ہوجائے تو وہ بالغ سمجھی جائے گی، لیکن اگر پندرہ سال عمر پوری ہونے کے باوجود کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو پھر پندرہ سال مکمل ہوتے ہی لڑکی بالغ شمار کی جائے گی اور اس پر بلوغت والے تمام احکام نافذ ہوجائیں گے۔

اسی طرح لڑکے کی بلوغت کی کم سے کم عمر بارہ سال ہے ،اس  کے بعداسے احتلام یا انزال ہوجائے، تو نماز، روزہ فرض ہوجائیں گے، ورنہ پندرہ سال کی عمر میں  وہ شرعاً بالغ کے حکم میں ہو  گا، اور نماز پڑھنا،روزے رکھنافرض ہوگا۔نیز یہ علامات  علاقے، موسم اور ماحول کے اختلاف  سے مختلف عمر  میں ظاہر ہوسکتی ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحا لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنة به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا (وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنة ولها تسع سنين) هو المختار كما في أحكام الصغار

(قوله: لقصر أعمار أهل زماننا) ولأن «ابن عمر - رضي الله تعالى عنهما - عرض على النبي صلى الله عليه وسلم يوم أحد وسنه أربعة عشر فرده، ثم يوم الخندق وسنه خمسة عشر فقبله» ولأنها العادة الغالبة على أهل زماننا، وغيرهما احتياط فلا خلاف في الحقيقة والعادة إحدى الحجج الشرعية فيما لا نص فيه نص عليه الشمني وغيره در منتقى."

(کتاب الحجر،‌‌فصل بلوغ الغلام بالاحتلام،ج:6،ص:153/154،ط:سعید)

الفقہ الاسلامی وأدلتہ للزحیلی میں ہے :

"البلوغ: يحدث البلوغ إما بالأمارات الطبيعية أو بالسن. أما الأمارات أو العلامات الطبيعية، فاختلفت المذاهب في تعدادها:
فقال الحنفية : يعرف البلوغ في الغلام بالاحتلام، وإنزال المني، وإحبال المرأة. والمراد من الاحتلام هو خروج المني في نوم أو يقظة، بجماع أو غيره....

ويعرف البلوغ في الأنثى بالحيض لخبر رواه الخمسة إلا النسائي: "لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار" أو بالحبل لأن الحمل دليل على إنزال المرأة فيحكم ببلوغها منذ حملت. وأدنى مدة البلوغ للغلام اثنتا عشرة سنة، وللأنثى تسع سنين، وهو المختار عند الحنفية.

فإذا لم يحصل بلوغ طبيعي، ثبت البلوغ بالسن، فمتى بلغ الولد (ذكرا أو أنثى) سن الخامسة عشرة فقد بلغ الحلم على المفتى به، وهو سن المراهقة."

(‌‌الفصل الثامن عشر: الحجر،‌‌المبحث الثاني أسباب الحجر،‌‌المطلب الأول،ج:6،ص:4473،ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504102028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں