بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے کی بلوغت کی عمر اور نابالغ بچے کی امامت کا حکم


سوال

کم ازکم کتنی عمر کا لڑکا نماز تراویح کی جماعت کراسکتا ہے؟ ایک   لڑکے کی عمر 15سال مکمل ہونے میں ابھی5ماہ کم ہے ، کیا وہ امامت کراسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح فرض نمازوں میں بالغ مقتدیوں کی امامت کے لیے امام کا بالغ ہونا ضروری ہے، ایسے ہی تراویح میں امامت کے لیےبھی امام کا بالغ ہونا ضروری ہے،نا بالغ کی امامت بالغ مقتدیوں کے لیے درست نہیں ہوگی۔ہاں نابالغ بچہ تراویح پڑھائے اور اس کے پیچھے نابالغ بچے ہی تراویح ادا کریں تو درست ہوگا۔بالغ ہو نے کا مدار بلوغت کی علامات پر ہے، اگر علامات  ظاہر ہوجائیں تو  وہ امامت کرسکتاہے، علامات ظاہر نہ ہوں تو  قمری اعتبار سے پندرہ سال سے کم عمر کا لڑکا امامت نہیں کراسکتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ لڑکے کی عمر قمری سال کے اعتبار سے 15 سال سے کم ہے ، تو وہ بالغ لوگوں کی امامت نہیں کراسکتا۔

الجوہرۃ النیریۃ میں ہے:

"وفي الهداية ‌إمامة الصبي في التراويح والسنن المطلقة جوزه مشايخ بلخي ولم يجوزه مشايخنا؛ لأن نفل الصبي دون نفل البالغ حيث لا يلزمه القضاء بالإفساد بالإجماع ولا يبني القوي على الضعيف."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب قيام شهر رمضان، ج:1، ص:99، ط: المطبعة الخيرية)

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"قال: (ولا تجوز ‌إمامة النساء والصبيان للرجال) أما النساء فلقوله - عليه الصلاة والسلام -: «أخروهن من حيث أخرهن الله» ، وإنه نهي عن التقديم. وأما الصبي فلأن صلاته تقع نفلا فلا يجوز الاقتداء به، وقيل: يجوز في التراويح لأنها ليست بفرض، والصحيح الأول لأن نفله أضعف من نفل البالغ فلا يبتنى عليه."

(‌‌كتاب الصلاة، باب صلاة الجماعة، ج:1، ص:81، ط: قديمي كتب خانه)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وإمامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز. كذا في الخلاصة وعلى قول أئمة بلخ يصح الاقتداء بالصبيان في التراويح والسنن المطلقة. كذا في فتاوى قاضي خان المختار أنه لا يجوز في الصلوات كلها. كذا في الهداية وهو الأصح. هكذا في المحيط وهو قول العامة وهو ظاهر الرواية. هكذا في البحر الرائق."

(كتاب الصلاة، ‌‌الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج:1، ص:85، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضاً:

"‌بلوغ ‌الغلام بالاحتلام أو الإحبال أو الإنزال، والجارية بالاحتلام أو الحيض أو الحبل، كذا في المختار. والسن الذي يحكم ببلوغ الغلام والجارية إذا انتهيا إليه خمس عشرة سنة عند أبي يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وعليه الفتوى."

(كتاب الحجر، الباب الثاني في الحجر للفساد، الفصل الثاني في معرفة حد البلوغ، ج:5، ص:61، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں