بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

لڑائی جھگڑے کے دوران شوہر کا بیوی کو خلع کی پیشکش کرنے سے طلاق یا خلع کا حکم


سوال

میرے اور میری بیوی کے درمیان آپس کی ناچاقی کی وجہ سے لڑائی ہوئی، اس دوران میں نے اپنی بیوی کو وائس میسج کیا، جس میں میں نے اسے مخاطب کرکے یہ کہا کہ ”اگر تمہیں خلع لےکر جانا ہی ہے تو خلع لےکر چلی جاؤ، میں بھی تمہیں خلع دے دیتا ہوں، بس۔“ پھر اس کے بعد دوسرے میسج میں کہا کہ ”اگر یہی تمہاری عادتیں ہیں، یہی تمہاری سوچ ہے، یہی تمہاری بے غیرتی ہے، یہی تمہاری منافقت ہے، یہی تمہارا شک کا عنصر ہے، تو اس سے بہتر ہے خلع، کیوں اپنی اور میری جان کو عذاب میں ڈالا ہوا ہے۔“ پھر مزید کہا کہ ”ہر دن کی لڑائی سے، ہر دن کی بدتمیزی سے، ہر دن کی چخ چخ سے بہتر یہی ہے کہ ہم ایک ہی بار میں ختم کردیتے  کہ ہر چھوٹی بات پر ہم لڑ رہے ہیں۔“ جب کہ بیوی کی جانب سے خلع کا کوئی مطالبہ نہیں تھا اور نہ ہی اس نے خلع کو قبول کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ میرے ان الفاظ سے اور خلع کی پیشکش کرنے سے طلاق تو نہیں ہوئی؟

برائے مہربانی اس بارے میں میری شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ خلع دیگر  مالی معاملات  کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات کے معتبر ہونے کے لیے جانبین (عاقدین) کی رضامندی اور ایجاب و قبول ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع کے معتبر ہونے کے لیے بھی میاں بیوی کی رضامندی اور ایجاب و قبول ضروری ہوتا  ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں لڑائی جھگڑے کے دوران سائل کا اپنی بیوی سے مذکورہ بالا الفاظ کہنا، جب کہ بیوی کی جانب سے خلع کا کوئی مطالبہ نہیں تھا اور نہ ہی اس نے اسے قبول کیا، تو محض ان الفاظ کے کہنے سے اور خلع کی پیشکش کرنے سے تو سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، اور نہ ہی ان کے درمیان خلع ہوئی، بلکہ بیوی بدستور سائل کے نکاح میں ہے، تاہم آئندہ کے لیے سائل کو اس طرح کے الفاظ  استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:145، ط:ایج ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي."

(كتاب الطلاق، الباب الأول، ج:1، ص:348، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:230، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604102365

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں