بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لیپ ٹاپ رہن/گروی رکھوانا


سوال

ایک شخص نے میرے پاس لیپ ٹاپ رکھوایا اس کے بدلہ میں نے اس کو تین ہزار  روپے قرض دیے،  اب اگر وہ مجھے یہ رقم واپس نہیں دیتا تو کیا میرے لیے یہ لیپ ٹاپ اپنے پاس رکھنا درست ہے؟ نیز جب تک وہ میری رقم واپس نہیں کرتا تب تک یہ لیپ ٹاپ میں استعمال کرسکتا ہوں؟یا میں لیپ ٹاپ کی بقیہ قیمت دے کر اس سے یہ  لیپ ٹاپ خرید سکتا ہوں؟

 

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص سے قرضہ لینا اس کے بدلے اس کے پاس کوئی چیز رکھوانا شرعاً رہن/گروی  کہلاتا ہے،اور رہن امانت کے حکم میں ہوتا ہے، جس کا استعمال کرنا درست نہیں۔ لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے ایک شخص کو  3 ہزار روپے دیے ہیں اور پھر اس شخص نے اس کے بدلہ  اپنا لیپ  ٹاپ سائل کے پاس رکھوایا ہے، لہذا یہ لیپ ٹاپ شرعا رہن/گروی  کہلائے گا،اور  رہن/گروی   کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ جب تک قرضہ وصول نہ ہو جائے تب تک رہن /گروی  کو اپنے پاس روکے رکھنا جائز ہے ،البتہ اس سے کسی قسم کا  فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔ لہذا  جب تک سائل  تین ہزار روپے وصول نہ  کرلے  تب تک سائل اپنے پاس لیپ ٹاپ روک سکتا ہے ،البتہ اس  لیپ ٹاپ سے فائدہ اٹھانا یا اس کو استعمال کرنا سائل کے لیے ناجائز ہے، تاہم سائل اگر اس لیپ ٹاپ کو خریدنا چاہے تو  سائل اور مذکورہ شخص باہمی رضامندی سے اس لیپ ٹاپ کی قیمت طے کرلے پھر اس کے بعد اس قیمت  سے تین ہزار روپے منہا کرے بقیہ قیمت اداکرکے سائل کے  لیے مذکورہ لیپ ٹاپ خریدنا اور استعمال کرنا جائز ہوگا۔

مجمع الانہر فی  شرح ملتقی  الابحرمیں ہے:

"وفي المنح وعن عبد الله بن محمد بن مسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أن من ارتهن شيئا لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن الراهن لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة التي استوفى فضلا فيكون ربا وهذا أمر عظيم."

(كتاب الرهن، 588/2، ط:دار الطباعة العامرة بتركيا)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن."

‌‌باب المرابحة والتولية،فصل في القرض،166/5، ط: سعيد)

النتف فی الفتاوى  میں ہے:

"انواع الربا واما الربا فهو ثلاثة اوجه احدها في القروض  والثاني في الديون‌ والثالث ‌في ‌الرهون...‌‌الربا في الرهن واما الربا في الرهن فان ذلك على وجهين  احدهما في الانتفاع بالرهن والاخر باستهلاك ما يخرج من الرهن  فاما الانتفاع بالرهن مثل العبد يستخدمه والدابة يركبها والارض يزرعها والثوب يلبسه والفرش يبسطه ونحوها."

(كتاب البيوع، باب انواع الربا،484/1، ط:مؤسسة الرسالة - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"فإن باع من الغريم وقاصصه بالثمن جاز لو الغريم واحدا وإلا ‌صح ‌البيع ‌من ‌أحدهم لو بمثل القيمة دون المقاصة، وكذا لو قضى دين البعض دون البعض كالمريض."

(‌‌كتاب الحجر،151/6، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے :

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل، 320/4،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں