معاملہ وراثت کاہے، ایک آدمی لاپتہ ہوا تھا ، اور اس کی دو بہنیں بھی تھیں، دونوں بہنوں کی اولاد بھی موجود ہے،مرحوم خود لا ولد لازن تھا،وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی ؟
صورتِ مسئولہ میں جو شخص لاپتہ ہوچکا ہے،جب تک اس کی موت کا یقینی علم نہ ہو جائے ،اس وقت تک اس کا مال موقوف رکھا جائے گااور اس کی میراث ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں ہوگی،البتہ اس كو میت اس وقت تصور کیا جائے گا جب یہ اپنی پیدائش کے وقت سے ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے، اس کے بعد متعلقہ عدالت سے اس کی موت کا سرٹیفکٹ لے لیا جائے تو اس وقت موجود ورثاء میں اس کا مال حسب حصص شرعیہ تقسیم کردیا جائے گا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وفي الدر:إنما يحكم بموته بقضاء لأنه أمر محتمل فما لم ينضم إليه القضاء لا يكون حجة.... وفي الرد:رأيت عبارة الواقعات عن القنية أن هذا أي ما روى عن أبي حنيفة من تفويض موته إلى رأي القاضي نص على أنه إنما يحكم بموته بقضاء."
( كتاب المفقود، 297/4، ط: سعيد )
و فیہ ایضاً:
"(وميت في حق غيره فلا يرث من غيره)....قوله: على المذهب) وقيل يقدر بتسعين سنة بتقديم التاء من حين ولادته واختاره في الكنز، وهو الأرفق هداية وعليه الفتوى ذخيرة، وقيل بمائة، وقيل بمائة وعشرين، واختار المتأخرون ستين سنة
( كتاب المفقود،296/4، ط: سعيد )
فتح القدیرمیں ہے:
"قال المصنف:( والأرفق ) أي بالناس ( أن يقدر بتسعين ) وأرفق منه التقدير بستين. وعندي الأحسن سبعون لقوله صلى الله عليه وسلم:{ أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين } فكانت المنتهى غالباً، وقال بعضهم : يفوض إلى رأي القاضي ، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة ، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي."
( كتاب المفقود، 149/6، ط: دار الفكر، لبنان )
البحر الرائق میں ہے:
"إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
( کتاب الحدود، فصل فی التعزیر، 44/5، ط: دار الكتاب الإسلامی )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101288
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن