بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لاپتہ شخص کی بیوی کے پاس اگر نفقہ نہ ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

میری بیٹی کی شادی تقریبا ساڑھے پانچ سال پہلے ہوئی،اپنے شوہر کے گھر تقریبا تین سال رہی،اس عرصے میں بھی اکثر میرے پاس رہتی تھی،اس کا شوہر نشہ کرنے لگ گیا تھا آئس  اور چرس کا اور اس کی اسمگلنگ کرنا چاہ رہا تھا،اس کے بھائیوں نے اسے نشے کے ہسپتال میں داخل کرایا تو وہ وہاں سے بھاگ گیا،اس کے بعد ایک دو مرتبہ آیا اور عجیب باتیں کرنے لگا،اس کے بھائیوں نے کہا کہ یہ پاگل ہوگیا ہے،اس کے بعد تقریبا ڈیڑھ سال سے یہ لاپتہ ہے،اس کا کچھ کسی کو معلوم نہیں ہے،یہاں تک کہ اس کے بھائی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں میری بیٹی کیا کرے ؟اس کی ایک چھوٹی بیٹی بھی ہے،ان دونوں کا خرچہ میں اٹھارہی ہوں،لیکن اب خرچہ اٹھانا مشکل ہوگیا ہے۔اور میں اس کی شادی کرانا چاہتی ہوں، کیا خلع کی کوئی صورت بن سکتی ہے تو راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر شوہر لاپتہ ہونے کی وجہ سے حقوق بھی ادا نہیں کر رہا ہے اور نان نفقہ بھی نہیں دے رہا ہے،اور بیوی کے نان نفقہ کا کوئی انتظام بھی کرکے نہیں گیا اور بیوی کے لیے مزید انتظار کرنے میں گناہ کا اندیشہ ہے تو عورت اپنا مقدمہ کسی مسلمان قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا، پھر گواہوں سے اس کا مفقود اور لاپتہ ہونا ثابت کرے، کہ تقریبا ڈیڑھ سال  سے میرا شوہر لاپتہ ہے اور اس نے کوئی نان نفقہ نہیں چھوڑا اور نہ کسی کو نفقہ کا ذمہ دار بنایا،اور میں نے اپنا نفقہ معاف بھی نہیں کیا اورعورت ان باتوں کو گواہوں کی گواہی سے ثابت کرے،اور اگر گناہ کا اندیشہ ہے تو عورت اس پر قسم بھی اٹھائے ،اس کے بعد قاضی خود اپنے طور پر اس کی تفتیش وتلاش کرے، جہاں اس کے جانے کا غالب گمان ہو وہاں آدمی بھیجا جائے، اور جس جس جگہ جانے کا غالب گمان نہ ہو صرف احتمال ہو وہاں بھی ٹیلیفون وغیرہ کے ذریعہ معلوم کرے، اور اگر اخبارات میں شائع کردینے سے خبر ملنے کی امید ہو تو یہ بھی کرے۔

    الغرض تفتیش وتلاش میں پوری کوشش کرے، اور جب پتا چلنے سے مایوسی ہوجائے تو قاضی اس نکاح کو فسخ (ختم) کردے یا شوہر کی طرف سے طلاق دے دے۔

کورٹ کی جانب سے نکاح کو ختم کرنا شوہر کی جانب سے طلاق رجعی کے قائم مقام ہوگا،اس  کے بعد عورت اپنی عدتِ طلاق (تین ماہواریاں)مکمل کرکے کسی اور شخص سے نکاح کرسکتی ہے۔

( احسن الفتاوی ،ج5،ص421،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں