بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاپتہ بیوی کی بہن سے نکاح کے بعد مذکورہ بیوی کا لوٹ آنے کا حکم


سوال

 میرا ایک دوست ہے، ان کے گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا ہے، کہ گاؤں میں ایک خاتون دریا میں گر کر مر گئی ،اور اس کی لاش نہیں ملی،کچھ مہینوں بعد خاتون کے شوہر نے اپنی سالی(مذکورہ خاتون کی بہن)  سے  نکاح  کرلیا،اب وہ دریا میں گرنے والی خاتون 2 سال بعد واپس آگئی ہے، تو اب دونوں بہنوں میں سے کس ایک کو اپنے نکاح میں رکھے گا؟ اور  سالی سےجو نکاح کیا تھا اس کو حمل ٹھہرا ہوا ہے ،برائے مہربانی وضاحت فرما دیں۔

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیوی  کے دریا میں گر جانے اور غائب ہونے کے بعد  مذکورہ شخص پر لازم تھا کہ ہر ممکنہ کوشش سے اپنی بیوی کی خبر  لیتا،پھر اگر اس   کےبعد بھی شوہر کو کچھ  بھی معلوم نہ    ہوتا، اور اس مذکورہ شخص کا ارادہ  غائبہ بیوی کی بہن (سالی)سے ہی نکاح کا تھاتوغائبہ بیوی کو طلاق دے دیتا،اور عدت کی مدت کے پورا ہونے کے بعد  "سالی " سے شادی کر لیتا،لیکن مذکورہ صورتِ میں غائبہ بیوی کو طلاق دیئے بغیر (یعنی  مذکورہ شخص نے اپنی غائبہ بیوی سے نکاح برقرار ہوتے ہوئے)" سالی "سے نکاح کر لیا،جو کہ شرعاً حرام ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا اپنی سالی سےنکاح "نکاح فاسد" ہے،اور اس کا حکم یہ ہے کہ دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں،اور جو حمل مذکورہ شخص سے ہےاس بچے کا نسب اسی شخص سے ثابت ہوگا، اور   اب اس  شخص کی "سالی" پر عدت گزارنا (جو کہ حاملہ ہونے کی وجہ سے بچے کی پیدائش تک کا عرصہ ہے) لازم ہے، اور مذکورہ شخص پر اپنی سالی کو مہر ( جو کہ مہرِ مثل  اور نکاح میں طے شدہ مہر میں سے جو کم ہےوہ)  بھی دینا لازم ہے،نیز مذکورہ شخص اپنی سابقہ بیوی کے قریب اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک اس کی بہن (مذکورہ شخص کی سالی) کی عدت (بچے کی پیدائش تک کا عرصہ) نہ گزرجائے۔

فتح القدیر میں ہے:

"خرج بيانا للبيان المذكور في المرفوع، ولأن النكاح عرف ثبوته والغيبة لا توجب الفرقة والموت في حيز الاحتمال فلا يزال النكاح بالشك، وعمر - رضي الله عنه - رجع إلى قول علي - رضي الله عنه - ولا معتبر بالإيلاء لأنه كان طلاقا معجلا فاعتبر في الشرع مؤجلا فكان موجبا للفرقة، ولا بالعنة لأن ‌الغيبة تعقب الأودة، والعنة قلما تنحل بعد استمرارها سنة، قال (وإذا تم له مائة وعشرون سنة من يوم ولد حكمنا بموته) قال - رضي الله عنه -: وهذه رواية."

(كتاب المفقود، ج: 6 ص: 147 ط: دار الفکر)

رد المحتار  میں ہے:

"(و) حرم ( الجمع ) بين المحارم (نكاحا) أي عقدا صحيحا (وعدة ولو من طلاق بائن و) حرم الجمع (وطأ بملك يمين بين امرأتين أيتهما فرضت ذكرا لم تحل للأخرى).....(وإن تزوجهما معا) أي ‌الأختين أو من بمعناهما (أو بعقدين ونسي) النكاح (الأول فرق) القاضي (بينه وبينهما) ويكون طلاقا.

(قوله: ونسي الأول) فلو علم الصحيح والثاني باطل، وله وطء الأولى لا أن يطأ الثانية فتحرم الأولى إلى انقضاء عدة الثانية كما لو وطئ أخت امرأته بشبهة حيث تحرم امرأته أنه ما لم تنتقض عدة ذات الشبهة ح عن البحر."

 (كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج: 3 ص: 41،40،38 ط: سعيد)

أيضاً فیہ:

"(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود (بالوطء) في القبل (لا بغيره) كالخلوة لحرمة وطئها (ولم يزد) مهر المثل (على المسمى).....(قوله: كشهود) ومثله تزوج الأختين معا ونكاح الأخت في عدة الأخت ونكاح المعتدة......"

(كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد، ج: 3 ص: 131 ط: سعید)

فقط واللہ أعلم 

 


فتوی نمبر : 144408101872

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں