بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاپتہ بیٹی وارث بنے گی؟


سوال

1993 میں ایک شخص کی بیٹی اس کی زندگی میں ذہنی توازن خراب ہونے کی وجہ سے گم ہوگئی، پھر 1999 میں اس شخص کا انتقال ہوا ، اس کا ترکہ تمام ورثا میں تقسیم ہو گیا ، گم شده بیٹی کا جو حصہ بنتا ہے وہ ابھی تک جوں  کا توں پڑا ہے ،اس کا ایک بھائی زندہ اور دوسرے دو بھائیوں کے بھتیجے زندہ ہیں، تو کیا اس لڑکی کا یہ ترکہ ورثا میں تقسیم ہوگا یا نہیں ؟ کیوں کہ وہ پاگل بھی تھی اور گم شدہ بھی ہے، اگر تقسیم ہوگا ،تو کس طریقے سے تقسیم ہوگا ؟

نوٹ: لڑکی اب تک گمشدہ ہے ،ایک بھائی زندہ ہے دو بھائیوں کا انتقال ہوچکاہے، لیکن وفات شدہ بھائیوں کی اولاد زندہ ہیں ،اور گم شده کا حصہ اب تک محفوظ ہے ،گم شدہ غیر شادی شدہ ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ مفقود  کو اپنی ذات کے حق میں زندہ تصور کیا جائے گا ، یعنی  اس  کی  بیوی کسی سے نکاح نہیں کرسکتی اور اس کی میراث ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں ہوگی، لیکن حق غیر میں اس کو مردہ تصور کیا جائے گا، یعنی  جو شخص اس کے مورثوں میں سے انتقال کرے ،تو اس مفقود کا اس کی میراث میں حق نہیں ہوگا، البتہ لاپتہ شخص کو میت اس وقت تصور کیا جائے گا، جب اس کی موت کی خبر آجائے یااس کے ہمجولی(ہم عمر) لوگوں کا انتقال ہوجائے، لیکن  اگر اس کی موت یازندہ ہونے کی خبر نہ آجائے تو ایسی صورت میں میراث میں اس کا جو حصہ ہو گا ، اس حصہ کو ساٹھ(60) سال کی عمر تک  محفوظ کیا جائے گا، پھر ساٹھ سال گزرنے کے بعد عدالت کی طرف سے اس  کی موت کا تصدیق نامہ حاصل کرنے کے بعد ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ لڑکی (جو کہ 1993 میں گم ہوئی تھی)کی وفات کی خبر نہ آئی ہو اور عمر بھی ساٹھ سال تک نہ پہنچ چکی ہو،تو اس کا حصہ میراث محفوظ رکھا جائے گا، البتہ جب لڑکی کی عمر ساٹھ سال ہوجائے اور عدالت سے رجوع کر کےموت کا تصدیق نامہ حاصل کیا جائے تو 1998 میں جو ورثاء(صرف تین بھائی) موجود تھے ، ان کے مابین تین حصے کر کے ہر ایک بھائی کو ایک ایک حصہ دے دیا جائے گا اور جو (دو) بھائی وفات پا چکے ہیں ان کا حصہ ان کے ورثاء میں تقسیم ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"المتأخرون اعتبروا الغالب من الأعمار، أي أكثر ما يعيش إليه الأقران غالبا لا أطوله فقدروه بستين"

(كتاب المفقود، ج: 4، ص: 296، ط: سعید)

 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"هو الذي غاب عن أهله أو بلده أو اسره العدو ولا يدرى أحي هو أو ميت، ولايعلم له مكان ومضى علي ذلك زمان، فهو معدوم بهذا الاعتبار، وحكمه: أنه حي في حق نفسه لا تتزوج امرأته، ولا يقسم ماله، ولا تفسخ اجارته، وهو ميت في حق غيره لايرث ممن مات حال غيبته كذا في خزانة المفتين."

(كتاب المفقود، ج:2، ص: 299، ط:المكتبة  الماجدية)

فتح القدیر میں ہے:

"قال المصنف (والأرفق) أي بالناس (أن يقدر بتسعين) وأرفق منه التقدير بستين. ‌وعندي ‌الأحسن ‌سبعون لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا، وقال بعضهم: يفوض إلى رأي القاضي، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي."

(كتاب المفقود، ج:6، ص: 149، ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا حكم بموته اعتدت امرأته عدة الوفاة من ذلك الوقت، وقسم ماله بين ورثته الموجودين في ذلك الوقت."

(كتاب المفقود، ج:2، ص:300،ط:المكتبة الماجدية)

البحر الرائق میں ہے:

"واختار المتأخرون ‌ستين سنة"

‌‌(كان مع المفقود وارث يحجب به، ج: 5، ص: 178، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101580

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں