بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لاؤڈ اسپیکر میں شبینہ پڑھنے کا حکم


سوال

 ہمارے گاؤں میں رات کو لاؤڈ اسپیکر میں شبینہ پڑھا جاتا ہے جو کہ کچھ حفاظ اجرت لے کر ایک رات میں مکمل کرتے ہیں اور گاؤں کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وہاں رات کو آواز بہت دور تک جاتی ہے اور وہاں کے لوگ جلد سوجانے کے بھی عادی ہوتے ہیں اور شبینہ رات سے لے کے صبح کی نماز کے بعد تک جاری رہتا ہے، جب کہ گاؤں کے لوگ صبح سویرے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے استماع بھی نہیں ہوتا ایسے شبینہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

قرآن کریم کا سننا اور سنانا  بہت  بڑی نیکی اوربڑے اجر و ثواب کا کام ہےلیکن اصولی طور پر ہر نیک کام کے کچھ آداب، حدودا ور شرائط ہوتی ہیں ،جب تک وہ نیک کام اپنی تمام شرائط اور حدود کے اندر اندر ہو تو باعث ِ اجر و ثواب ہے ،ورنہ باعث ِ گناہ ہے،چنانچہ شبینہ  کے جائز ہونے کیلئے  کچھ شرائط ہیں،وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں :

(۱)  پہلی شرط یہ ہے کہ شبینہ  نوافل میں نہ پڑھیں،اوراگر نوافل میں پڑھیں توباقاعدہ جماعت نہ ہو یعنی دو یا تین سے زائد مقتدی نہ ہوں؛  کیوں کہ اگر مقتدی تین سے زائد ہوئے تو یہ تداعی کے ساتھ نوافل کی جماعت ہوگی جو کہ مکروہِ تحریمی ہے،نیزاگرنمازِ تراویح میں شبینہ پڑھا جائے تو اس میں بھی مندرجہ ذیل شرائط کا خیال رکھنا لازم اور ضروری ہے :

(۲)قرآن پاک کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے۔ (۳) نام و نمود،دکھلاوا اور ریا کاری مقصود نہ ہو۔  (۴) اس  کے لیے  فضول خرچی نہ کرنی پڑتی ہو۔ (۵)اس میں لاؤڈ اسپیکر کا بلا ضرورت استعمال نہ ہو، بلکہ صرف بقدرِ ضرورت استعمال کیا جائے۔ (۵)اس کی وجہ سے معتکف اور ذکر،تلاوت اورنماز میں مشغول شخص یا آرام کرنے والے یا کسی بیمار کو تکلیف نہ ہو۔  (۷)فرائض و واجبات کی طرح اس کی پابندی نہ ہو۔ (۸)اس میں شرکت  کرنے والے اپنے ذوق و شوق سے شرکت کریں ، شرکت نہ کرنے  پر   طعن و تشنیع نہ کی جائے۔ (۱۰)جلدبازی کی وجہ سے نماز کے ارکان و شرائط کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ (۱۱)شبینہ پڑھانے والے حضرات مشروط یا معروف طور پر اجرت نہ لیں۔ (۱۲) سننے والے کلامِ پاک پورے ادب و احترام کے ساتھ سنیں۔ 

مذکورہ بالا تمام شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے  بھی بہتر یہ ہے کہ ایک رات میں قرآن مجیدختم کرنے کے بجائے کم سے کم تین راتوں میں ختم کیا جائے۔

  آج کل  مروجہ شبینہ عام طور پر مفاسد سے خالی نہیں ہوتا،  نوافل کی جماعت، نمائش وریا، نماز تراویح  اور قرآن کی بے ادبی وبے احترامی وغیرہ امورِ قبیحہ شبینہ کےلازمی جز ہوگئے ہیں،عام طورپر حفاظ آداب واصول تجوید کی رعایت نہیں رکھتے، اس قدر تیز پڑھتے ہیں کہ بہت سے حروف کٹ کر ایک ایک رکعت میں بےشمار لحن جلی (تجوید کی بڑی غلطیاں )ہوتی ہیں، نیز بسا اوقات جو کچھ پڑھا جاتا ہے، وہ مقتدیوں کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا پڑھا گیا،نیز بعض جگہ تو  شبینہ ہوتے ہوئے بہت سے لوگ چائے پانی ہنسی مذاق بلکہ ٹھٹا تک لگانے میں مصروف رہتے ہیں،  ایسی صورت میں مروجہ شبینہ  کا ناجائز ہونا ظاہر ہے۔

لہذا صورت مسؤلہ میں سائل کےگاؤں میں  جوشبینہ  کاطریقہ کارہے جس سے لوگوں کے آرام میں خلل ہوتاہےجائز نہیں۔اوربلاضرورت لاؤڈ اسپیکرکا استعمال کرنابھی  جائز نہیں، بلکہ آواز صرف اتنی رکھی جائے جتنی مقتدیوں کے لئے ضرورت ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"التطوع ‌بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره وفي الأصل للصدر الشهيد أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية المسجد لا يكره، وقال شمس الأئمة الحلواني: إن كان سوى الإمام ثلاثة لا يكره بالاتفاق وفي الأربع اختلف المشايخ والأصح أنه يكره. هكذا في الخلاصة."

(الفتاویٰ  الھندیۃ،کتاب  الصلاۃ،(1/ 83) ط:رشیدیہ)

علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة ……. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارىء الخ."

(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار (1/ 660)ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں