بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لنک پر کلک ذریعے کمائی کا حکم


سوال

 ایس آر  اے کہ جس میں 3000 ہزار  روپے سے اکاؤنٹ بنا دیا جاتا ہے اور یہ رقم قابل واپسی نہیں ہوتی اور پھر آپ کی لنک کی وجہ سے اگر کوئی شخص اکاؤنٹ بناتا ہے تو اپ کو 18ڈالر ملتے ہیں اور پھر اس کے لنک سے کوئی اکاؤنٹ بناتا ہے تو دونوں کو ڈالر ملتے ہیں اور دوم آپ کو روزانہ کے اعتبار سے 12کلک یا ٹاسک دئے جاتے ہیں ان کو پورا کرنے پر اپ کو 12 ڈالر ملتے ہیں کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ اول کلک مکمل کرنے پر 2 اور دوسرے پر اس سے زیادہ اور اسی طرح تیسرے پر اس سے زیادہ ڈالر دے دیےجاتےہیں ،اب یہ پوچھنا ہے کہ شرعا اس ایپ کی کیا حیثیت ہے، اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینا شرعا کیسا ہے ،اس سے حاصل شدہ رقم کی حیثیت کیاہے ، جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   اشتہار پر کلک کر کے پیسہ کمانے کا حکم یہ ہے کہ ایڈ (اشتہار) پر کلک کر کے آن لائن پیسے کمانے کا جو طریقہ آج کل رائج ہے وہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1- اس میں ایسے لوگ اشتہارات کو دیکھتے ہیں جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2- جان دار کی تصویر کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں، لہذا اس پر جو اجرت لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3- ان اشتہارات میں خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

4- اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ اس نے نئے اکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں،  شریعت میں بلا محنت کی کمائی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے۔

5: اسی طرح مذکورہ لنک میں سودی غیرسودی دونوں آپشن موجود ہے، اور اس کی پبلسٹی سے سود کی طرف رہنمائی ملتی ہے اگرچہ واضح طور پر نہیں ہے، اس وجہ سے بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حدیث شریف میں ہے:

" عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلی اللہ عليه وسلم أي الكسب أطْيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور".

(باب الدعاء الی الاسلام، الفصل الثالث عشر التوکل باللہ، ج:2، ص:434، دارالکتب العلمیۃ)

ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير."

(الاجارة على المعاصى والطاعات، ج:1، ص:290، ط:اميرحمزه كتب خانه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں