میں استعمال شدہ کپڑا نیلام لنڈے کا کام کرتا ہوں، پورے بنڈل باہر سے آتے ہیں، تقریباً ایک بنڈل میں 400 کلوگرام مال ہوتا ہے، اس میں کبھی کبھار ڈالر یا یورو نکلتے ہیں جو کہ لاکھوں کے حساب سے ہوتے ہیں، تو کیا میرے لیے یہ پیسے حلال ہیں؛ کیوں کہ میں نے تو مال خریدا ہے پیسے تو نہیں خریدے ہیں؟ اور اگر حلال نہیں ہے تو میں کیا کروں؟ اور اگر میرے مزدور کو یہ پیسے ملے تو کیا اس کے لیے حلال ہیں یا وہ مجھے دے گا یہ پیسے؟
صورتِ مسئولہ میں لنڈے کا کپڑا خریدا جاتا ہے ، نہ کہ اس میں موجود نقدی و قیمتی سامان؛ لہذا اس میں سے نکلنے والا سامان سارا لقطہ کے حکم میں ہے،اور اس کا واپس کرنا لاز م ہے،اگر اس کا واپس کرنا ممکن نہ ہو تو کسی غریب کو صدقہ کرنا لازم ہے۔ اگر آپ کا مزدور غریب مستحقِ زکوۃ ہو تو اس کو بھی دے سکتے ہیں ۔ اور اگر یہ مزدور کو ملے اور وہ غریب ہو تو وہ بھی لے سکتا ہے۔
الفتاوى الهندية-ج:17,ص:358:
"وقال يعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين ، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لايرجع على الفقير و إن ضمن الفقير لايرجع على الملتقط و إن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه ، كذا في شرح مجمع البحرين."
مجمع الضمانات-ج:1,ص:209:
"وعلى الملتقط أن يعرفها إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبها لايطلبها بعد ذلك ... ثم يتصدق بها، وله أن ينتفع بها لو فقيرا فإن جاء صاحبها بعدما تصدق بها فهو بالخيار إن شاء أمضى الصدقة وله ثوابها، وإن شاء ضمن الملتقط، وإن شاء ضمن المسكين إذا هلك في يده وإذا كان قائمًا أخذه."
تبيين الحقائق: (3/ 304):
"و قيل: إن شيئًا من هذه المقادير ليس بلازم ويفوض إلى رأي الملتقط يعرفها إلى أن يغلب على ظنه أن صاحبها لايطلبها بعد ذلك ..."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200299
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن